حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اللہ کا رنگ ‘‘دراصل وہ عادات واطوار ہیں جو حضرت محمد ﷺکا اسوئہ حسنہ کہلاتے ہیں ،اسی رنگ و روپ کو اسلام کا نام دیاجاتاہے ،جسے بار گاہِ ربو بیت میں پذیرائی ہے اور کسی کو نہیں ، یہ سمجھ آجائے تو کوئی آدم کا بیٹا اور بیٹی درِحبیب ﷺسے منہ نہ پھیرے ۔ ؎ تیرے آستانہ پہ میں جان دوں گا نہ جائوں نہ جائوں ،نہ جائوں گا خالی(۴۵)دِلوں کی زینت :ایمان ،نیکی سے محبت ،برائی سے نفرت : ظاہری حسن و جمال سے آگے کی منزل وہ ہے جو حضرت نبی محترم علیہ السلام نے متعین فرمائی وہ یہ کہ انسان کے اخلاق و عادات خوش منظر ہوں آپ ﷺکے اصولوں پر قرآنِ کریم و روایاتِ حدیث میں بعض افعال کو خوبصورت اور حسین کہاگیا ہے اور بعض کوبرا ،تاکہ انسان ظاہری حُسْن و جمال سے ایک قدم آگے بڑھ کر حیاتِ معقول کے حسن کا ادراک کرے اور تکامل (perfection)کی راہ میں ان خو بصورت اوصاف کو حاصل کرے،اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ انسانی دل کواچھّی عادات اور نیک اعمال کاخوگر بنادیتے ہیں اور بری عادات سے متنفّر کر دیتے ہیں اسے نماز چھوڑنے سے کو فت ہوتی ہے ،نماز پڑھنے سے راحت ہوتی، اسے صدقہ نہ کرنے اور مال جمع کرنے سے راحت نہیں ہوتی ہے بلکہ اسے صحیح جگہ خرچ کرنے سے سکون ملتاہے ، اسے بدلہ لینے سے نہیں ،معاف کرنے میں لذّت آتی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوبِکُمْ‘ ‘ (15) (یعنی اطاعت و محبّتِ رسول ﷺکی برکت اور صحبتِ حبیب ﷺکے طفیل )اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلو ں کو (اخلاقِ حَسنَہ سے)مُزیّن کر دیاہے) جس دل میں حضور ﷺکی عادات سے طبعی مَحبّت کے پُھول نمودار ہوتے ہیں اس دل سے مَحبّتِ الٰہی کی خوشبو نمودار ہوتی ہے ۔ اس کی جلا اور ترقی نیکی سے ہوتی ہے،اس میں خوشی نیک اعمال ،خدمتِ خلق ، صبر ،رضاو تسلیم کے ذریعے درآمد ہوتی ہے اور کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو اس وقت تک سکون نہیں ملتاجب تک اللہ سے معافی نہ مانگ لی جائے ۔اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو دل کو چین تب آتاہے جب اس متعلقہ شخص تک اس کا حق پہنچا دیا جائے ؎ سرِتسلیم ہے خم تیری رضا کے آگے دے وہ رتبہ جو ہے تسلیم و رضا سے آگے اسی کیفیت کے دل میں پیدا ہونے کانام ایمان ہے ۔حضرت نبی محترم علیہ السلام سے کسی نے پوچھا :ایمان کیاہے ؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :جب تجھے نیکی کر کے خوشی ہوا ور برائی کر کے تیرادل غمگین و حزیں رہے تو (سمجھ لے