حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
جھگڑے اور فساد کے کانٹوں سے زمین پاک ہوتی جائے گی ۔معافی اور خوبصورت طریقے سے درگذر وہ اخلاقِ رسول ﷺہیں جو دل کاچراغ ہیں اسی کی روشنی میں انسان کسی منزل تک پہنچ سکتاہے ۔ اسی صفحِ جمِیْل اور معافی کی خوشبو سے نبی رحمت ﷺنے مکّہ کی فضائوں میں وہ گلستانی کیفیّت پیدا کی جس کی بہاروں سے آپ ﷺکے جان کے دشمن بھی دوست بن گئے اور صدیوں سے جاری لڑائیاں محبّت میں بدل گئیں ،آپ ﷺنے تریسٹھ سالہ زندگی میں جس حُسنِ کرم کا مظاہرہ کیا ا س میں صبر کو بڑا دخل ہے ، یہ ایسا ’’اخلاقی حُسن ‘‘ہے جسے قرآنِ کریم میں بھی حَسیْن کہا گیا ہے اور اس کاحکم دیا گیا ہے :’’فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِیْلا‘‘(8)(بنا بریں آپ (ﷺ) انتہائی خوبصورت انداز میں صبر کریں ) ’’حَسیْن صبر و استقامت ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیرِ خداسے شکوہ نہ کیا جائے ، اس طرح سے کہ اس کے علاوہ ہماری مصیبت اور پریشانی سے کوئی باخبر نہ ہو۔(9)بقولِ میر ؎ لبریرِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا ’’صبر‘‘نبی کریم ﷺکا وہ روحانی حُسن ہے جسے مسلمانوں میں پیدا کرنے کے لیے قرآنِ کریم نے لفظِ جَمَالْ استعمال کیا ،یہاں ’’صبرِجَمیْلْ‘‘اس قابلِ تَوجّہ اور ’’حَسیْن بردباری ‘‘ کے معنیٰ میں ہے ،جس میں مستقل مزاجی ہو اور وہاں سے نہ مایوسی کا گذر ہو اور نہ وہاں سے بے تابی ،نالہ و فریاد اور شکوہ و شکایت کو کوئی راہ ہو ،اور ایک مسلمان اپنے تمام تر شکوے اورشکایتیں اپنے اللہ کے سامنے رکھّے۔حکمائِ اسلام لکھتے ہیں :اگرچہ تحمل و بردباری کے حُسن کی عالمِ واقع میں کوئی صورت نہیں ہے لیکن اس میں وہ قلبی حُسن پا یا جاتاہے جو ہر طرح کے حُسن و جمال کو معنیٰ و مفہوم عطا کر تاہے ۔بر دبار انسان کا ضمیر پُر سکون اور حقیقت میں مطمٔن ہو تاہے اور وہ ان سارے ہنگاموں سے دور رہتاہے جو عالمِ خارج کی موجودات سے تعلّق کی وجہ سے انسان کی روح پر نا مناسب اثرات ڈالتے ہیں ۔یہ وہ موقع ہو تا جب زیبائیاں انسان کے لئے اپنے حُسن کو بہترین انداز میں ظاہر کرتی ہیں معلوم ہوا کہ صبر وبرداشت روحِ انسانی کا حُسن ہے ، اب اس مُزیّن روح سے جو اعمال صادر ہوں گے وہ بھی اَچھّے ہوں گے ۔نبی اکرم ﷺکے حلم وصبر کا مطالعہ کیا جائے تو ’’صَبرِجمیل‘‘کا مطلب یہ بنتاہے کہ انسان زندگی کے مشکل حالات سے نہ گھبرائے اور پیمانۂ صبر لبریز نہ ہونے پائے ۔ ایسی کوئی بات جو نا شکری ،کفر انِ نعمت ،بے تابی و بے قرارِی کی عکاّس ہے ، اس کی زبان پر نہ آئے ۔ ؎ شکوہ نہیں جو اس کو پروانہ ہو ہماری دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے ؟