حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
گلیوں میں وہ اپنے سوار (سید نا محمد کریم ﷺ)کے جمالِ جہاں آراء پہ بصد جان قرباں ،خراماں ،خراماں بڑھ رہی تھی ،آپ ﷺکے دائیں بائیں اسلحہ سجائے استقبالی نوجوان اور بزرگ چل رہے تھے، ہر ایک کی خواہش تھی آخری نبی ﷺاس کے مہمان بن جائیں جب کوئی یہ بات کرتا ،آپ ﷺمسکراتے اور جواب دیتے :اونٹنی کا راستہ چھوڑدو،اسے جہاں حکم الٰہی ہوگا،بیٹھ جائے گی (30) (۲)آٹھ سال بعدوہ مکّہ فتح ہوا ،جہاں سے چُھپ کے نکلے تھے ،مختصرساسامان اور آپ ﷺکے جاں نثاروں میں سے صرف ایک ساتھی ساتھ تھا ،آج دس ہزار کا لشکرِ جرّار آپ ﷺکے ساتھ ہے کسی کو جرأت نہیں کہ وہ تابِ تقابل لائے، آپ ﷺاونٹنی پہ سوار سورۃالفتح کی آیات پڑہتے،سر جھکائے ہوئے ،انتہائی عاجزانہ انداز میں داخلِ شہر ہوتے ہیں (31)یہ دونوں منظر خوشی کے مواقع کے ہیں پہلے میں آپ ﷺپر تشکّر کے اور دوسرے میں عاجزی کے اثرات نظر آتے ہیں ۔اس کے علاوہ بے شمار مثالیں سیرت کی کتابوں میں کہ آ پ ﷺکے چہرہ مبارک پر جلال و جمال ،حُزن و ملال ،تبسّم و تفکّر ،تفاخر ،تشکّر ، تخاطب اور باہمی مشوروں اور (مختلف )حالات میں مختلف اثرات کا ظہور ہوتاتھا ۔کہیں خوشیوں میں شر کت ہے تو کہیں آہوں اور سسکیوں بھر اماحول ،ظلم کی داستانیں ،مظلوموں کی فر یادیں جو آسمان تک پہنچتی ہیں اور دل آزردہ ہوتے ہیں ؎ دل ہی تو ہے نہ سنگ وخِشْت، درد سے بھر نہ آئے کیوں ؟ روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں ؟ (۶۰)خُوشی و تبسُّم یَا ترحّم و تفکُّر اورحُسنِ تاثّرات: حضور سید الکائنات علیہ السّلام کو دورانِ خطاب ہنستے ،مسکراتے ،متبسّمانہ گفتگو کرتے بھی دیکھا گیا اور منبر پر یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کے آنسو بہتے ہیں ،وہ خود بھی روتے ہیں اور سامعین کو بھی رلاتے ہیں اور یہی شانِ حُسن ہے کہ انسان یہ سوچے کہ وہ کس وقت ، کہاں اور کس حال میں کس قسم کی مجلس میں ہے ؟وہ تعزیتی مجلس میں ہے یا شادی کے مجمعے میں ؟اور وہ کیا بیان کر رہاہے ؟یہ بات افسو سناک ،عذابِ الٰہی اور اندوھنا کی کی ہے ، تبشیرِ جنّت یا مبارک بادی کی ہے ؟الغرض :نبی اکرم ﷺنے انسانی چہرے اور اس کے اتار چڑھائو ،مسکرانے ،رونے ،پیار اور غصے کے جو مختلف حالات وتاثّرات کی تعلیم دی ہے اسی کا نام حُسنِ تاثُّرات ہے، اس کااستحضار اور اس پر عمل ہی ایک مسلمان کی خوبصورتی کا معیار ہے نہ خلوت ،تنہائی اور تفکّر و تدبّر کی کیفیت ہر وقت درست ہے او ر نہ ہی ہر گھڑی کی