حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
اترانے لگے تو دیکھنے والا سُبْحَان اللّٰہِ کہے بغیر نہیں رہتا دیگر آیات میں بھی زمین کی دوسری خوبصورتیوں کی جانب اس طرح اشارہ ہوا ہے :تَتَّخِذُونَ مِنْ سُہُولِہَا قُصُوراً وَّتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتاً ۔(8)( تم (انسان ) ہموار زمینوں میں محَلّات بناتے تھے اور پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بناتے تھے ۔)یہ بات اس نکتہ کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ قرآن کی نگاہ میں آلاتِ زیب و زینت بنانا جائز ہے ۔لیکن آیت کے آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان خدائی نعمتوں کویاد رکھو اور برے کام انجام نہ دو ،دنیا میں فتنہ و فسادنہ پھیلاؤ تا کہ دنیا اپنے فطری حسن و جمال سے محروم نہ ہو ۔ اور انسان اللہ کی مایہ ناز تخلیقات سے صرف فوائد سمیٹے اور نقصانات سے بچا رہے ۔(۴)درآمداتِ حسن ،حُسنِ کائنات، تَدَبُرّاور معرفت ِالٰہی: حضرت مُحَمّدرسول ﷺاللہ کے خاص الخاص بندے تھے نہ معلوم اللہ نے کس کس طریقے سے آپ ﷺکی ذات ِاقدس کو اپنی پہچان کا علم دیا تاہم جس طرح عام انسانوں کو اللہ نے مظاہرِقدرت اور حسنِ کائنات میں تدبّر کے ذریعے معرفت کا درس دیا بعض اوقات یہ ذریعہ ان کے لیے بھی دیکھا گیا ۔ کہ آپ ﷺقدرتِ خداوندِی کو دیکھتے اور اللہ کی یاد شروع کردیتے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما فرماتے ہیں ، ایک رات میں حضرت رسولِ اکرم ﷺکی خدمت میں تھا ، میں نے دیکھا ،آپ ﷺرات کے آخری پہر میں اُٹھے ،آسمان کی طرف دیکھا اور سورۃ آلِ عمران کو آیت نمبر ۱۹۰تا ۲۰۰تلاوت کیا ، پھر واپس گھر میں تشریف لائے، مسواک کی،وضو کیا اورکھڑے ہو کر نماز شروع فرمادی ،نماز کے بعد کچھ آرام فرمایا ،پھر کھڑے ہو ئے ۔اور گھر سے (صحن کی طرف )نکلے اور آسمان پر نظرکی اور یہی آیات لِسانِ مقدس پہ جاری ہو گئیں ۔(اللہ سے ہم کلامی ،اظہارِ عجزونیا ز کے بعد صحن سے )واپس ہوئے ،مسواک کیا ، وضو فرمایا اور نماز میں مشغول ہو گئے۔(9) ؎ بکھر رہے تھے ہر اِک سمت کائنات کے رنگ مگر یہ آنکھ کہ جو ڈھونڈتی تھی ذات کے رنگ حضرت نبی مکرّم علیہ السلام کی اس مبارک ادا ء سے انسانوں کو یہ پاکیزہ تصوّر ملا ہے کہ آسمان کی بلندی ، اس میں موجود چاند ستاروں کی چمک اور زمین کی آغوش میں سبزہ زاروں کے حسن میں تدبّر کر کے پہلے اسے اپنے دل ودماغ میں اتاریں ،پھر یہ سوچیں میرے دل کی یہ درآمداتِ حسن کس کی قدرت کاشاہکارہیں ؟دل سے جو آواز آئے،وہ اللہ کی حمد و ثنا ہونی چاہیے۔