حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
وہ آئے تو شرفِ انساں میں بہار آئی بشکلِ احمدمرسل رحمتِ پروردگار آئی اللہ اللہ حضورﷺنے انسانی عزّت و وقار اور اس کی تعظیم و حقوق کا کس قدر پاس رکھا؟واقعۂ ذ یل نے سیرتِ نبویؐ کاایک خوبصورت پہلومزید واضح کردیا۔ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نبی رحمت ﷺکے معتمد خاص صحابہ میں سے ہیں انہوں نے اپنی زوجۂ محترمہ کے متعلّق وصیت فرمائی اور (اللہ کے راستے پہ) چلے گئے ، ان کی بیوی فوت ہوگئیں تو لوگوں نے اُن کو پرانے کفن میں ہی آخری آرام گاہ میں لٹادیا ،راوی فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاذرضی اللہ عنہ آئے تو اس وقت ہم قبر پر مٹی ڈال کر اپنے ہاتھ جھاڑرہے تھے ،فرمایا :کفن کیسا دیا ؟ عرض کی :دو پرانے کپڑوں میں ۔یہ سن کرانہوں نے قبر کشائی کروائی ،میت کو نیا کفن پہنا یا (اور دفن کر کے) حضور ﷺکا یہ ارشاد سنادیااپنے مردوں کا کفن اچھا بنایا کرو،اسی کفن میں وہ روزِ قیامت اٹھیں گے۔ (29)قارئینِ کرام :حضرت مُعاذرضی اللہ عنہ نے قبر کشائی جیسے مشکل ترین کام کو اس لیے انجام دیا کہ مرنے والے کو اس خوبصورتی اور اہتمام سے دفنایا نہیں گیاتھا ،جس کی ہدایات نبی مکرم علیہ الصّلوۃواتسلیم نے دے رکھی تھیں ۔یہ ہے حضور ﷺکا ذوقِ جمالیہ کہ آپ ﷺہرشخص کی رخصتی کو اس سلیقہ مندی اورانسانی وقارسے انجام دنیا چاہتے ہیں جس کا وہ مستحق ہے۔ صحابی رسول ﷺنے جو کیا یہ اس تعلیمِ رسول( ﷺ) کانتیجہ ہے جس کے اندر انسانیت کا وہ احترام سکھا یا گیاہے کہ زندگی میں اورمرنے کے بعد بھی عزّت باقی رہے۔ ؎ ہدایت کاغازہ سجاکے آئے ،جب آئے تو وہ مسکرا کے آئے گلستانِ عزّت سے پھولوں کی مالا،لائے تو زم زم بہاکے لائے جس طرح کفن کے صاف ستھرے ہونے کااہتمام کروایاایسے ہی قبرِانسانی کو درست بنانے اور اس کے اکرام کایہ حکم دیا کہ اس کے ساتھ ٹیک نہ لگائو(30)(۴۱)کفن سفید اور قبر ہموار ہو ،جو زندوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرے : سیدِ دوعالم ﷺنے کیا نفیس ذوق پایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعزازواکرام کا حکم دیا،سفید لباس جو آپ ﷺکو پسند تھا ،مرحومین کے لیے وہی تجویز کیا، بظاہر عجیب معاملہ ہے کہ ایک انسان کی روح نکل گئی ہے بظاہر اس کی زینت بے محل نظرآتی ہے، اسے کیا معلوم کہ اسے سفید، براق کفن میں چار پائی پر لٹایاجارہا ہے اور خوشبو اس کے اوپر نچھاور ہو رہی ہے اور اسے نہلانے کے لئے جراثیم سے پاک پانی کاانتظام ہے؟اس کی بے حسی