حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
تو اللہ سے ہم کلام ہو کر عرض کرتے :اے ہمارے پرور دگار !آپ نے یہ سب بے کار نہیں بنایا (بلاشبہ اتنے بڑے آرائشی نظام کاکوئی مقصد ہے)آپ پاک ہیں ،ہمیں جہنّم کی آگ سے بچا لیجیے!(37)اسی طرح جب سیّدنا حضرت محمد ﷺسبزے کو دیکھتے ہوں گے تو اُمیدہے تب بھی اللہ کی حمدوثنابیان کرتے ہوں گے، امام غزالی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :ہرے بھرے کھیتوں ،بیل بوٹوں اورقطار اندرقطار درختوں کو دیکھنا حظِ نفس ،لذّت وشہوت کے لیے ہی نہیں ہوتا (جیسا کہ عوام کا مسلک ہے )بلکہ طبعِ سلیم کو اس سے محبّتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے،غم دُور ہوتے ہیں ،طبیعت میں فرحت وتازگی درآتی ہے ،خوبصورت ودیدہ زیب رنگوں پھولوں ،فضا ء میں اڑتے پرندوں ، باغوں اور عام درختوں پہ چہچاتے طائرانِ خوش رنگ و خوب آہنگ فرحت وانبساطِ قلبی کا پیغام دیتے ہیں ۔(38)حضرتِ غالب کو شاید اسی تخیّل نے یہ کہنے کی توفیق دی ؎ اُگ رہاہے درودیوار سے سبزہ غالب ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہےسبزیاں ،کشتیاں ،باغیچے اورزیورات کے خزانے: سبزے کی مناسب سے سبزیوں سے بھی آپ ﷺکو خُصوصی مناسبت تھی لو کی (الدُّباء)(کدُّو)کا وجود آپ ﷺکے دسترخوان پر ہوتاتھا ، احادیث میں (اَلقثَّاء)یعنی ککڑی کھانے کاتذکرہ آتاہے، آپ ﷺنے کھجوراور ککڑی دونوں کو ملاکر کھایا۔(39)پچھلی چند سُطور میں جوحدیث گذری اس میں اللہ کے پیارے رسول ﷺکے ذوقِ نفس نے انسانوں کی قلبی فرحت اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے جن پانچ چیزوں کا انتخاب فرمایا ان میں سے ایک (یعنی سبزے کو دیکھنے )کی وضاحت ہوچکی اب دوسری چیز ’’پانی کو دیکھنے ‘‘کی قدرے تفصیل کی جاتی ہے ،اس میں بھی پہلے حضورﷺکی اُن عاداتِ مبارکہ کا ذکر ہے جن میں سبزہ کے ساتھ پانی کاذکر ہے یعنی آپ ﷺکاباغوں ،ان کے سایوں اور ان میں موجود پانی سے لُطف اندوز ہونے کا ذکر پہلے ہوگاپھر پانی کے متعلّق لکھا جائے گا۔آب پاشی ،دریائی اور نہری نظام کو اس نے روزی سے جوڑا اور فرمایا:دودریا مل کر چلتے ہیں دونوں مل کر یکساں نہیں ہوجاتے یہ (ایک تو) میٹھا ، پیاس بھُجانے والا اور (یہ دوسرا) کھاری ہے (دریائوں کی مچھلیوں سے ) تم گوشت کھاتے اور (دریائوں میں ) زیور تلاش کرتے ہو جسے پہنتے ہو ، اور تم دریا میں کشتیاں دیکھتے ہو کہ (پانی کو ) پھاڑتی جاتی ہیں تاکہ تم اس کے فضل سے معاش تلاش کر و تاکہ شکرکرو۔(40)