حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
آسمانوں پر سجی جنت یاد آتی ہے اور دل اپنے اللہ سے ملنے کو بے قرار ہوجاتاہے ،چمنستانِ عارضی کا یہ خوشگوار اثر اگرچہ مزاج کو معراج کی بلندیوں پہ لے جاتا ہے، اگلے ہی لمحے آواز آتی ہے ۔ابھی وقت باقی ہے تیاری کرو۔پیمانۂ عمر لبریز ہوگا تو دیدار ِگلستاں ہوگا ؎ موجۂ گل کو ابھی اذنِ تکلّم نہ ملے پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو وہ شیریں زبان حضرت محمد ﷺہیں جن کی آواز ہمیں آخرت کی تیاری کے لیے بیدار رکھتی ہے ۔(۶۶)زمین کاحُسنِ خداداد،سرکاری ذِمہّ داری اور پرندے : امام بخاری اور امام دارمی رحمۃاللہ علیہما نے اپنی کتابوں میں ان حد یثوں کا ذکر کیا جن میں ہے کہ (۱)سیدنا محمدکریم علیہ السّلام نے فرمایا:شہروں کی چراگاہ ہیں (سبزہ زار ) اللہ اور اس کے رسول ﷺکی (سر کاری )ملکیّت ہیں ۔امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ سیّدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (مکّہ کے قریبی میدان )’’سَرِف ‘‘میں اور (مدنیۃُ الرسوُل ﷺکے نزدیکی علاقہ ) ’’اَلرَّبْذہ‘‘میں چمن زار بنوایاتھا (9) ؎ باغِ فردوس دکھاتارہے مجھے اپنی بہار صاف نہریں ہوں رواں ،جھوم رہے ہوں اشجار بلاشبہ یہ دونوں چراگا ہیں اور ہرے میدان میلوں پہ محیط تھے ۔اس باب کے بعد امام بخاری رحمۃاللہ نے حدیث نقل کی کہ کوئی شخص رسی لے اور لکڑیاں جمع کر کے لائے اور بیچے (یہ کام اور مزدوری )اس سے کہیں بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں (10)اس کے بعداسی باب میں ہے :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں ایک اونٹنی پر (سواری کر کے ) گھاس کاٹنے اور بیچنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ان روایات سے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ اسلامی ممالک میں شجر کاری اورسبزہ زاری کاباقاعدہ اتنا اہتمام ہونا چاہیے ،جو لکڑیوں کو کاٹ کر دروازوں فرنیچر اور ایندھن کی ضرورت کو بھی پورا کر سکے اور جانوروں کی خوراک کے کام بھی آئے امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ان حدیثوں پر یہ مختلف ابواب باندھے ہیں (۱)سرکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام انسانوں کے فائدے (مُلکی مفاد )میں (شجر کاری وسبزہ کاری )کا اہتمام کرے (۲)کسی شخص کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سرکار کی اجازت کے بغیر ایک پودے کو بھی نُقصان پہنچا کر (زمین کے حُسن کو گہنائے )(11) ؎ نغمۂ جوئے چمن ،زمزمۂ ابرِ بہار عشوئہ موسم گل ناز ہوائے کُہسار