حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
رضی اللہ عنہ معروف اور زور آور پہلوان تھے انہوں نے قُبولِ اسلام کی شرط یہ رکھی کہ حضور ﷺان سے کشتی کریں ، چنانچہ آپ ﷺنے تین بار ان کو پچھاڑکر ان کا شوق پوار کر دیا اور وہ اپنی مجوّزہ شرط کے مطابق دامنِ رسالت سے وابستہ ہوگئے (21)٭ایک دن آپ ﷺنے ترغیب اور اظہارِ شوق کے لیے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے گھُڑ سواری کا مقابلہ کیا ،جس میں آنحضور ﷺسبقت لے گئے اور فرمایا:میں ابنُ العَواتک ہوں اور میرا یہ گھوڑا ’’اَلْجَوَّادُالبَحْر‘‘’’بہت تیز ‘‘ہے (22)یہ آپ ﷺکی فصاحت و بلاغت ہے کہ گھوڑے کی تیزی کو سمندر سے تشبیہ دی جبکہ خود سمندر بھی یادِ گارِالٰہی ہے۔ اللہ نے فرمایا:’’وَمِنْ آیَاتِہِ الْجَوَارِ فِیْ الْبَحْرِ کَالْأَعْلَامِ‘‘(23)(اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر اور جہاز ہیں ،جو گویا پہاڑ ہیں ) سیّدنا حضرت محمد کریم ﷺتیرا ندازی کرنے والے اور گھڑ سواری کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے تھے آپ ﷺان کی مجاہدانہ سر گرمیاں اور مقابلہ بازی دیکھ کر مسکراتے اور محظوظ ہوتے تھے ،جس سے آپ ﷺکے جاں نثاروں میں ایک حوصلہ ،ولولہ اور ذوق وشوق کا رُجحان پیدا ہوتا تھا ٭اللہ کے رسول ؐکے گھوڑے اور ڈور کا شوق: اس سلسلے میں آنحضرت ﷺنے اُن قریشی خواتین کو اپنی تعریف و توصیف سے نوازا جن کو اونٹ سواری کا فن آتاتھا ،حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :حضرت مریم علیہا السّلام (بہت فضل واحسان والی خاتون تھیں تاہم قریش کی عورتوں کی طرح وہ )اونٹ کی سواری نہیں کر سکتی تھیں (24)٭گھوڑے اور اونٹ اسفار تجارت و غزوات کے لیے استعمال ہوتے تھے اس لیے آپ ﷺنے مختلف اوقات میں ان کے درمیان مسابقت کروائی ،آپ ﷺکے پا س دو گھوڑے ،ایک اونٹنی اور بعض اوقات کئی گھوڑے اور اونٹ ہو تے تھے، جن کے مقابلے آپ ﷺنے کروائے، ایک دن اونٹ پہ حضرت ابواسید السّاعدی رضی اللہ عنہ اور دوسری سواری (اونٹنی )پہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے مراکبت فرمائی ۔(25)آنحضور ﷺکے گھوڑوں کے نام اَلظَّرفْاور لِزارتھے ۔ایک اللُّحَیْفْیا اللُّخَیفْتھا (26)یہ اور ان کے علاوہ آپ ﷺکے پاس اکثر اوقات مسلسل اونٹ یا گھوڑوں کا ہونا یہ ثابت کرتاہے کہ سیّد نا حضرت محمد کریم علیہ السّلام سواری کو ضروری سمجھتے تھے۔ آپ ﷺہر مسلمان کو باہمت ،جفاکش ،مُستعد اور محنتی دیکھنا چاہتے تھے ۔جبکہ سواری اور سُستی وکا ہلی کا کوئی جوڑ نہیں ہے ،آپ ﷺکے ہم جلیس یعنی (صحابہ رضی اللہ عنہم )بھی اس راز کو سمجھ گئے اس لیے کسی نے تو یہ عجیب دعا بھی کروائی کہ گھوڑے کی