حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
یہاں بس ان تین حضرات کے علمی خطابات کے تذکرے پر اکتفاء کیا جاتاہے ،یہ فہرست طویل ہے ، اسی قسم کے قرآنی خطابات سے عورتوں کو بھی نوازاگیا(11) آپ ﷺکے خُلفاء رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد سلاطینِ اسلام نے یہ سلسلے جاری رکھّے ،اب اگرچہ مسلم ممالک کی قدریں بدل گئیں ، ترجیحات تبدیل ہوگئیں تا ہم بعض اسلامی حُکومتوں میں اِسی سُنّتِ رسول ﷺاور صوتی ذوقِ حبیب ﷺکی اتباع میں حُفّاظ،قرّاء، عُلماء اور مُفتیان ومُتخصّصین کو ان کے فُنون کی مناسبت سے القاب کا سلسلہ جاری ہے ۔الغرض: سیّدِدوعالم ﷺانتہائی با ذوق طبیعت رکھتے تھے وہ دیگر کلاموں کے ساتھ سب سے زیادہ کلام ِ الہٰی کو پڑھتے ،سنتے اور سناتے تھے ، اسی کی نسبت سے لوگ آپ ﷺکے دربارِ عَالیہ میں عزّت ووقار پاتے تھے ،یہ لوگ ظاہری قرأت اور تلاوت کی برکات کے ساتھ ساتھ اس کے پیغام کو سمجھتے اس دوران دل سے جو تمنّا ئے جنّت اور جہنّم سے پناہ مانگتے تھے اس سے بار گاہِ الہٰی کے مقرّب ہوجاتے تھے بقولِ غالب ؎ فریادکی کوئی نے نہیں ہے نالہ پابندِ نے نہیں ہے(۹۰)ایّام ِعید،موسیقی ،ملّی ترانے اور مَسّرتیں : شاہِ دوعالم ﷺکے لائے ہوئے دین کو صرف نماز ،روزہ اور چند عبادات تک محدود کر کے جو نقشہ پیش کیا گیا، وہ بہت اُدھوراہے ۔آپ ﷺمکمّل ضابطۂ حیات لائے، جس میں تہذیب و تمدّن کو اوّلیت حاصل ہے۔ تیوہار، مَسّرت وشاد مانی کے ایام ہرقوم اور ملّت میں منائے جاتے ہیں ۔بعثت سے پہلے آپ ﷺنے سب ایام ِ فرحت کا گہرا مطالعہ کیا کسی میں لہوولعب دیکھا یا سنا تو کہیں آپ ﷺکو دینِ ابراہیمی کی مخالفت محسوس ہوئی جسے آپ ﷺکی طبعِ نفیس نے قُبول نہ کیا ،عکاظ کا میلہ ثقافت کا امین اور تہذیب وتمدّن کا ترجمان سمجھا جاتاتھا یہ اس وقت کا میڈ یا بھی تھا جہاں شُعراء واُدَباء محافل میں اپنا کلا م پڑھتے اور قوموں کے نظریات پر اثر انداز ہوتے تھے ،ممکن ہے آپ ﷺنے اس میں کسی مُوحّد شاعر کا کلام سنا ہو ،تاہم ہر اس تہواری تقریب سے آپ ﷺنفریں رہے ،جو ایسی سر گرمیوں پر مشتمل تھی،جس سے آپ ﷺنے مستقبل میں لوگوں کوروکنا تھا ،اس لیے کہ نبیوں کی اس سر زمین کویہود،نصاریٰ و مشرکین نے بد حال کر دیاتھا۔ ؎؎ اے گل زمین تجھے چاہ تھی ایک کتاب کی اہلِ کتاب نے مگر تیر احال کیا کردیا؟