حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
وَالبَنِیْنَ‘‘(تمہاراجوڑاملارہے بیٹے پیدا ہوں )کہتے تھے ،آپ ﷺنے فرمایا:(اہلِ ایمان تم)یوں کہو!بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ(43)٭انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو’’ سَبَابَۃ‘‘کہاجاتاتھا آپ ﷺنے ’’المُسَبّحۃُیَااَلسَّبَّاحَۃُ‘‘(تسبیح والی انگلی)کہنے کارواج ڈالا٭آپ ﷺکے سامنے ایک شخص کو بطورِ طنزکہا گیا: ’’یَاحَبَشِیُّ‘‘اور دوسرے غلام کو’’یَانِبْطِیُّ‘‘!کہاگیا،آپ ﷺنے فرمایا:ایسے نہ کہو ، یہ تو دونوں ’’اَصْحَاب مُحَمَّد‘‘ﷺہیں (44)٭لوگ غصّے میں ہوتے تو مخالف کو کہہ دیتے’’قَبَّحَ اللّٰہُ وَجْھَکَ‘‘(اللہ تیرا چہرہ برا کرے) (بھلارحمتِ دو عالم ﷺاسے کیونکر جاری رہنے دیتے؟)آپ ﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی ایسی بات نہ کرے، اللہ نے آدم علیہ السّلام(اور اس کی اولاد )کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے (45)٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی کسی لغزش پر نبی علیہ السّلام سے عرض کرنے لگے:مجھے اجازت ہو میں اس کی گردن اڑادوں !آپ ﷺنے فرمایا،اے عمر!انہیں ایسے نہ کہو،صرف بھلائی کی بات کرو! (تمہیں ان کی یہ بات نظرآئی ،تم نے یہ نہ دیکھا کہ )یہ بدری صحابی ہیں ،جنہیں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اے بدر والو!جو ہو سکے عمل کرلو،جنّت تم پر واجب ہوچکی ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔(46) ؎ میں اس کرم کے کہاں تھا قابل؟ حضورﷺکی بندہ پروری ہے(۹۷)حُسنِ خطابت ،طرزِتکلّم اورسخنوری کی قدر: اندازِ گفتار میں نبی رحمتِ عالم ﷺنے ہر قسم کی قباحتوں کو دُور کرکے کیا کیا خوبیاں اور رعنائیاں پیدا فرمائیں ؟اور کس جملے سے عصبیت کی بو کو ختم کیا ؟کس پیرے سے جاہلیّت کی رعونت کے بت پاش پاش کیے؟کن الفاط سے انسانیت کے مقام رفیع کی لاج رکھی؟اور کن اشاروں سے عجزوانکساری کی خوشبو پیدا فرمائی ؟یہ ایک طویل موضوع ہے ،آپ ﷺداعی تھے اس لیے نرم و نازک اور دل میں اتر جانے والی بات ہی فرماتے اوریہی لوگوں کو سکھاتے تھے گلستانِ دعوت کو سجانے کے لیے آپ ﷺنے ان پھولوں کا انتخاب فرمایا،جن کی خُوشبو سے جزیرۃ العَرَب مُعَطّر تھا تاہم جب یہ گلہائے رنگا رنگ درس گاہِ صُفّہ کے تلمِیذانِ باوفا کے گلستاں میں بیٹھے تو’’خَطیْبُ الاسلام‘‘کہلائے ،ان کی سر پرستی کے لیے آپ ﷺکا یہ جملہ زبان زدِخلائق ہے :’’اِنَّ مِنَ البَیَانِ لَسِحْرًا‘‘(47)’’بلاشبہ بعضِ بیان جادو اثر ہوتے ہیں ‘‘ ؎ سوزکے آوے جب وہ بیاں پر شعلہ اِک جوں شمع زباں پر