حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ایسا عطیہ ہے ،جس سے پورے جسم کی سجاوٹ ،آرائش اور حسن میں بے پناہ اضافہ ہوتاہے ،اور ان فوائد کے علاوہ یہ کمال گھریلوسکون،محبت اور ایک دوسرے کے لیے تسکین کا باعث بھی ہے ، اس لیے اللہ عزّو جَلَّ نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور مشیت ِایزدی کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ انسان کی اندرونی اور بیرونی خوبصورتی ہمیشہ تابندہ رہے ۔چار قسمیں کھا کر اللہ نے حسنِ انسانی اور تخلیقِ انسانی کو اپنا شاہکارقراردیا ہے (1) بقولِ دلاور فگار ؎ آدمی شاہکارِ فطرت ہے میرے پرور دگار حد کردی اس کی بیرونی خوبصورتی یعنی جسم کے تمام اعضاء چہرہ ،ہاتھ ،پائوں وغیرہ کو میل کچیل اور کسی ظاہری و باطنی برائی اور بد صورتی سے بچانا ہے ،اور اندرونی خوبصورتی یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہوں اور ایذاء انسانی میں ملوث نہ کرے ،دوسرے انسانوں کو ایک انسان دوخوبیوں کی وجہ سے اچھا لگ سکتاہے ۔(۱)اس وجہ سے کہ اس کا چہرہ حسین ہے (۲)اس وجہ سے کہ اس کی عادات اور اخلاق سے لوگوں کو راحت ملتی ہے ۔اوّلُ الذّکر صفت تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور دوسری خوب صورتی اس کے اختیار میں ہے ، اخلاق و تہذیب کے باب میں اس کا نام ’’حُسنِ سیرت ‘‘ہے ۔یعنی پہلے کا نام جمال ہے دوسرے کا کمال نام رکھنا مناسب ہوگا،حضور سیدُ الکائنات ﷺخوبصورتی کو پسند فرماتے اور تخلیقی کم صورتی کو ناپسند نہیں فرماتے تھے ، اور خوب سیرتی (خوش اخلاقی ) کو پسند فر ماتے اور بد سیرتی یعنی بداخلاقی کو ناپسند کرتے تھے ۔ان کی تمام تر تعلیمات انسانی سیرت و کردار کے کمال کا سبق دیتی ہیں ۔جہاں بھی کہیں ،جب بھی کہیں ،جس بھی کسی نے سیرت رسول ﷺسے سبق لیا تو بس ؎ راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں جب مسکراکے پھولوں کلیاں بکس گئیں(۴۳)آئینہ دیکھنے کی دعا اور حکمت ِنبوی ﷺکی وسعت: سیدنا حضرت محمد کریم ﷺجب آئینہ میں چہرۂ انور کو دیکھتے تو یہ الفاظ زبان پر ہوتے’’اَللَّہُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلُقِیْ‘‘ (2)ترجمہ دعا:اے اللہ !آپ نے میری صورت کو اچھا بنایاہے ،میرے (کردارو)اخلاق کو بھی اچھا کرد ے!آئینہ تو آپ ﷺکے سفر و حضر میں ساتھ ہی رہتا تھا ،آئینہ دیکھنے کی دعا ہر مسلمان کو پڑھنی چاہیے ، ہم میں سے کوئی شخص بھی جب آئینہ دیکھتا ہے تو دائیں بائیں اور دنیا و مافیھا سے بے خبر ہو جاتاہے لیکن محسنِ کائنات ﷺتو آئے ہی بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے تھے ،اس لیے انہوں نے غفلت کے ان لمحات کو ایک دعا کے ذریعے ذِکرِ الٰہی سے معمور فرمایا ،دعا کے جو الفاظ اوپر لکھے گئے ہیں ،وہ معانی کا ایک دریا اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں