حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
’’سب سے اچھّا قاری‘‘ ہونے کا ٹائٹل دیا تھا ،وہ آپ ﷺکی خدمت میں مودّب حاضر تھے ۔آپ ﷺنے فرمایا:اے اُبَیْ! یہ جبریل آپ کوسلام کہتے ہیں اور مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں تمہیں قرآنِ کریم سنائوں عرض کی :آپ پر میرے والدین قربان اے اللہ کے رسو ل ! آپ ہی پر قرآن کریم کا نزول ہوا ،اور آپ(کو ہی حکم ہے کہ مجھ ناچیز کو )سنائیں ؟ فرمایا: میرے اللہ کا مجھے یہی حکم ہے ۔(4)قرآنِ کریم کی تلاوت ،تسبیحات اوردرود شریف ،یہ مدینہ کی فضائی خوشبو تھی ۔ ؎؎ تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری تھا صوتِ حُسن سے کوئی قرآن کا قاری حضرت ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :جس سال آپ ﷺکی وفات ہوئی اس سال میں دوبار آپ ﷺنے مجھے قرآنِ کریم کی تلاوت سنائی ۔(5) یہ اللہ کے پاک پیغمبرﷺکا ذوقِ قرأت وشوقِ سماعت تھا جس سے آپ ﷺاپنے دل کو تسکین دیتے تھے ۔آج آپ ﷺکے متبعین بھی دل کے سب امراض کا علاج قرآن سے کرتے ہیں جو مرنے کے بعد کے غم بھی دور کرتا ہے۔ ؎ غمِ ہستی کا اسد کس سے ہوجُز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تکقرآنِ کریم،ذوقِ سماعت اور حوصلہ افزائی: ہم صرف ان مذکورہ تین قُرّاء کے خطا بات کا ذکر کرتے ہیں (۱)سیدنا حضرت ابوموسیٰ الا شعری رضی اللہ عنہ۔’’اَلْقَارئیُ،اَلْقْرئُیاورالمُعَلِّمُ ‘‘کہلائے گئے (6) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو’’غُلَامٌ مُعَلَّمٌ‘‘(پڑھا لکھّا لڑکا)قرار دیا ۔(7)اتباعِ رسول ﷺمیں ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ’’اَلْحَبْر‘‘(بڑے عالم ) لقب سے بھی نوازا (8)ان کو ’’وَعَائُ الْعِلْم‘‘(علم کا برتن ،مُجسّمہء علم )بھی اسی علمی اور قرآنی مصروفیات کی وجہ سے کہا جاتاتھا ،جبکہ یہ لقب حضرت نبی علیہ السّلام نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا ۔(9)تیسرا واقعہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ہے ،ان کی علمی کا رگردگی اور تجوید وقرأت سے حضرت نبی محترم علیہ السَّلام اتنے مُطمئن ہوئے کہ ان کو آپ ﷺنے صُفّہ کی درس گاہ کا اُستاد بناد یا ،آپ ﷺکے شاگردوں کو جب یہ تعظیم و مقام اور تعلیم کی حوصلہ افزائی ملتی تھی توان کو سب غم بھو ل جاتے تھے ، ایک روز خوش ہو کر آپ ﷺنے اُن کو ’’اَقْرَأُالْاُمَّۃِ‘‘ (10)(اُمّت کے سب سے بڑے قاری کا) لقب عنایت فرمادیا ؎ سر ہوا اُونچا قلب کشادہ کیا کم ہے یہ عطا سنگ ملیں یا تمغے طلائی سب کے ساتھ چلو