حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
رحمتِ دو عالم ﷺآج دنیا میں موجو دہوتے توشاہراہوں ،سبزہ زاروں اور مساجد و مدارس اوردفاتر کے صحنوں میں گل کاری کو ضرور پسند فرماتے ،مسجدِ نبوی ؐکی دیوار سے تھوک صاف کر کے آپ ﷺنے خوشبو لگائی تھی،(سبل الہدیٰ ۵/ ۲۴)میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اس سُتون پر ہمیشہ عطر لگایا کرتے تھے ،آج گرد آلود فضائوں میں خوشبو بکھیر تے دالانوں کو وہ ضرور پسند کرتے تجربہ ہے کہ انسانی گذر گاہوں میں پھولوں کی نمائشوں سے بہارایمان و اخلاق کا حُسن اور بھی دو بالا ہوجاتاہے ۔پھولوں کے دلفریب مناظر لوگوں کو اپنی طرف متوّجہ کرتے ہیں ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پٹرول ،ڈیزل اور کیمیکلز کے بے دریغ استعمال اور دھواں اگلتی چمنیوں نے فضا ء کی فطری پاکیزگی کو مکدّر کر دیا ہے۔ان حالات میں فطرت کے رنگ سے اسے مزیّن کر نا اشد ضروری ہو گیا ہے تا کہ لوگ ان بے شمار رنگ برنگے پھولوں کی خوبصورتی اور مہک سے لطف اندوز ہو سکیں ،جو انسانی فرحت و نشاط کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ اثر پذیری کے لیے بعض اوقات ایک پھول ہی کافی ہو تاہے ؎ تمام رات میری خواب گاہ روشن تھی کسی نے خواب میں ایک پھول دے دیا مجھے(۱۰۲)کلامی عطر بیزیاں اور تلخیاں : باطنی مشک باریوں میں دوسری قسم کا تعلّق زبان سے ہے یعنی ایک مسلمان کے اندازِ گفتار سے بد بو نہ آئے ،خوشبو آئے اس کا بیان تو عنوا ن نمبر کے (۵۶،۵۷،۹۵،۹۶)کے اندرہو چکا ، اب یہ باقی ہے کہ :کیا الفاظ میں بد بو بھی ہوتی ہے ؟جی ہاں !بد بو بھی اور کڑواہٹ بھی، دونوں برائیاں ممکن ہیں ، جناب رسالتمآب ﷺکے صرف دو ارشاد ملاحظہ کیجیے !(۱) الفاظ میں بد بو :ارشاد فر مایا:جو شخص جھوٹ بولے اس (کے منہ سے ایسی بری بو نکلتی ہے کہ ) فرشتہ ایک میل دور چلاجا تاہے ۔ (24)(۲) الفاظ میں کڑواہٹ (تلخی ) کے بارے میں سیدِ دوعالم ﷺنے یہ ارشاد اس وقت فرمایا: جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺکی خدمت میں تھیں اور انہوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی کو تاہ قدی بیان کرنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا (یعنی وہ حفصہ جو اتنی سی ہیں ؟)آپ ﷺنے فرمایا:اے عائشہ !یہ جو تم نے (اشارے کی زبان سے ) کہاہے ،اگر اسے دریا (سمندر )میں ڈال دیاجائے تو اس کی بات تلخی سے اس کا سارا پانی کڑوا ہو سکتا ہے (25)پیغامِ خاص اس روایت کا یہ بھی ہے کہ رشک و رقابت میں حُدود کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ؎ ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں ولے ان کی تمنّا نہیں کرتے