حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدا للہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے کہا:اباجی !اس سوال کا جواب (محفلِ نبویﷺمیں کسی کو نہ آیا )میرے ذہن میں آگیا تھا ،مجھے کم عمری کی وجہ سے حیاء مانع ہوئی اور جواب نہ دے سکا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تم جواب دے دیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ۔(42) ملاحظہ :اس باب کا حصّہ اول یعنی ’’تفریحات ‘‘مکمّل ہوا ،اگلے صفحات سے اس باب کے حصّہ دوم ’’اِقتصادیا ت‘‘میں حُسنِ شریعت وجمالِ سُنّت کی ابتداء کی جاتی ہے ۔(۸۶)حُسنِ محنت جَمالِ رزق اور بازارِ مدینہ (حُسن تجارت ): رزقِ حلال کے سلسلہ میں اِنسَان بہت محنت کرتاہے اور بعض اوقات صرف اس لیے ناپسندیدہ طریقے سوچنے لگتاہے کہ وہ یہ بھول جاتاہے اسے قسمت سے زیادہ نہیں مل سکے گا،اس لیے محنتِ انسانی کا حُسن یہ ہے جو رَسُولِ رحمت ﷺنے فرمایا : اے لو گو!اللہ سے ڈرو،اور روزی کا حُصول خوبصورت طریقے سے کرو!اس لیے کہ اپنی روزی کے کامل حُصول تک کوئی مر نہیں سکتا،حلال لے لو اورحرام چھوڑدو! (43)اللہ کے پیارے رسول ﷺکو سلیقہ مندی ، وقار اور حُسنِ کار اتنا محبوب ہے کہ معیشت (جسے لوگ دنیاداری بھی کہہ دیتے ہیں ) اسے دین داری پر لانے کا حکم اس انداز سے ارشاد فرمایاکہ اس حکمِ خداوندی پہ آنا آسان ہو جائے، انسان اس حُسن کاری پہ تب ہی آسکتاہے جب اسے یقین ہو کہ وہ اپنی قسمت سے زیادہ اس دنیا سے نہیں لے سکتاہے ؎ سیاہی جیسے گر جائے دمِ تحریر کاغذ پر میری قسمت میں یوں تصویر ہے شبِ ہجراں کی آقائے نامدار ﷺنے قرآنِ کریم کے فرمان :’’کُلُوامِنَ الطّیِّبَاتِ‘‘ (44)(کھائو پاکیزہ )اس حکم پر لوگوں کو لانے کے لیے ہر ممکن کو شش فرمائی۔ جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی،عیسائی اور مشرکین اپنے اپنے طریقے سے روزی کے انتظامات کرتے ہیں جبکہ اسلام کا اپنا طریقہ ہے جس میں جھوٹ ،سود اور دھو کا وغیرہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ اگر مسلمان ان کے ساتھ ہی دوکانیں رکھیں گے تو اسلام کا اپنا تشخّص قائم نہ ہو سکے گا، جبکہ کا روبار کا دُرست اور سچ پر مبنی ہونا مسلمانوں کا اجتماعی حُسن ہے ۔اس لیے اس شہرِ ذی وقار یعنی اہلِ ایمان کے دارالسَّلطنت (اَلْمَدینۃُالمُنوَّرہ)ریاستِ اسلامیہ کے تاجروں کے لیے ایک منفرد بازار مقرر کرنے کے لیے پہلے سوقِ بنی قَینُقَاعتشریف لائے (جو جنوب مدینہ میں بطرف عوالی مدینہ ہے)پھر نبی مکرم ﷺنے اپنے مبارک پیروں سے ایک نشان کھینچا اور فرمایا:یہ تمہارا بازار ہے ۔نہ اسے تنگ کیا جائے اور نہ اس میں کوئی ٹیکس ہو (45)اسے سُوقِ