حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
(۶۷)طائرانِ حرمین،سبزہ زاروں اور درختوں کاتحفّظ: آپ ﷺدینِ فطرت لے کرآئے تھے ہر انسان،جن ،فرشتوں اور پرندوں کے لیے باعثِ رحمت تھے ۔آپ ﷺنے پرندوں کے حُقوق اور ان کی بقا و تحفّظ کے لیے احکام جاری فرمائے کہ صرف نشانہ بازی کے لیے اُن کو ہلاک نہ کیا جائے ،ان کی آزادی نہ سلب کی جائے اُن میں مائیں بھی ہوتی ہیں ان کے بچوں سے متعلّق ان کی دل آزاری سے باز رہاجائے (یہ ایک بڑا وسیع مو ضوع ہے جس کے شواہد کُتبِ احادیث وسیر میں موجود ہیں ۔تاہم یہاں صرف پرندوں سے متعلّق ذوقِ رسالت کی بات ہورہی ہے اس لیے بہت محدود لکھا گیا )یہ معلوم ہوا کہ آنحضور ﷺانسانوں اور پرندوں کو ناموافق موسمی حالات اور فضائی نا ہموار یوں سے بچانے کے لیے ہر یالی کو ضروری سمجھتے تھے ،ماحول کی خوشگواری کے لیے شہروں اور گھروں میں پرندوں کے خوبصورت ترانوں کی گونج ،ان کے رنگ برنگے پروں کے جمیل وخوش منظر و جود کو اچھا جانتے تھے ۔نبی اکرم ﷺاور پرندوں کے متعلّق احکام ،آپ ﷺکی مجالس میں اور آپ ﷺکے گھروں میں ان کی موجودگی کا ذکر حدیثوں میں آتاہے شجر کاری انسانی آبادی کے لیے کتنی ضروری ہے ،حضرت نبی محترم علیہ السّلام اس سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی لیے حرمِ مکّہ کے درختوں کو نُقصان پہنچانے سے روکا کہ یہ شہروں کاوقارہے امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں :مکّہ اور مدینہ میں رہنے والے لوگوں کے ذہنی سُکون ،قلبی فرحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے وہاں کی گھاس ،درختوں اور پرندوں کو محفوظ رکھنے کے احکامات جاری فرمائے گئے ہیں ؎ خوش نواسب پرندے چہکنے لگے خار تک خوش دلی سے مہکنے لگے مدینہ کے ایک بچے (حضرت عُمیر رضی اللہ عنہ )کی چڑیا مرگئی تو آپ ﷺنے افسوس کیا، آپ ﷺکے گھر میں بھی ایک جانور تھا جو دوڑتا بھاگتا رہتا جیسے ہی آپ ﷺگھر میں تشریف لاتے وہ خاموش اور ساکن و یکسو ہو جاتا(22)الغرض: نبی رحمت ﷺکو ہرے بھرے کھیتوں کی طرح سر سبز و شاداب اور پُر وقار وصاف ستھرے شہروں سے بھی اُنس تھا ،آج جتنی سُہولتیں ہمیں میسّر ہیں اسی لحاظ سے حُکومت اور رعایا کا فرض ہے کہ اداروں اور شہروں کو خوبصورت رکھا جائے ۔ٍآہوانِ مدینہ اور ساکنانِ شہرِذی وقار: نبی رحمت ﷺکے پسندیدہ شہر یعنی عہدِنبوی ؐکے مدینہ کی اگر تصویر بنالی جائے تو ان الفاظ کا سہارا لیناضروری ہے کہ شہر میں جگہ جگہ باغات ،چھوٹے بڑے کچے اور پکے مکانات ، پرندوں کی باغات میں چہچہاہٹ ،جانوروں کی