حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
اواپس پلٹ کر آیا ،حضور ﷺنے فرمایا،کیا یہ اچھا نہیں ہے اس بات سے کہ تم میں سے کوئی(اَلثَّائِر) آتا ہے،سر کے بالوں کو پریشان کئے ہوئے ،گویا کہ وہ شیطان (بُھوت ) ہے ۔(2)نیل الاوطارمیں ’’الثَّائِر‘‘کے یہ معنی لکھیں ہیں :یعنی وہ شخص جس نے کچھ دنوں بالوں میں کنگھی اور تیل کا استعمال نہ کیا ہوظاہر ہے اس کی یہ حالت بھی ترکِ سُنّت کا نتیجہ ہے،کاش اسے معلوم ہوتا کہ کنگھی ،بالوں کی دیکھ بھال ،صفائی اور انہیں تیل لگانا عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺاپنے سر مبارک پر (پگڑی کے نیچے )اکثر ایک چھوٹا کپڑا رکھا کرتے تھے اور یہ کپڑاچکنا ہٹ کی وجہ سے تیلی کا کپڑا معلوم ہوتا تھا ۔(3)فائدہ :عمامہ کے نیچے کپڑا اس لیے رکھا کرتے تھے کہ تیل کی وجہ سے عمامہ خراب نہ ہو اور یہ کپڑا تیل کی کثرتِ استعمال کی وجہ سے چکنا رہتاتھا ،لیکن اس کے باوجود نبی اکرم ﷺکی خُصوصیت میں یہ شمار کیا گیا ہے کہ حضور ﷺکا یہ کپڑا میلا نہ ہوتا تھا ،نہ حضور ﷺکے کپڑوں میں جوں پڑتی تھی نہ کھٹمل خون کو چُوس سکتا تھا۔ (4)یہ ہے محبوبِ ربّ العالمین ﷺکا شوقِ نَظافت اورپاکیزہ زندگی جس سے ہم کو نفس و شیطان نے دُورکردیاہے، ابھی وقت ہے کہ شیطان سے نفرت اور سُنّت سے محبت کر لی جائے ورنہ وہ اپنی روایتی دشمنی سے ہمیں اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرے گا۔ ؎ جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے اے ناتما می نَفَسِ شعلہ بار حَیفاسلام کی خوبصورتی اور دعوائے عارفیت: اس شخص کو آپ ﷺنے ’’کَاَنَّہُ شَیْطَانٌ‘‘فرمایا حدیث کے یہ آخری الفاظ بہت زیادہ قابلِ توّجہ ہیں ،اور خاص طور پر ان کے لئے جنہیں اپنی ’’ثائرالرّأسِ وَ اللِّحیۃ‘‘شکل پر یہ مغالطہ لگا ہوا ہے کہ وہ فرشتے ہیں ۔جن مسلمانوں کو اپنی داڑھی کے اُلجھے اور لمبے ہونے پا ناز ہے اور وہ اُسے سادگی اورعارفیت یعنی خدارسیدہ ہونے کانام دیتے ہیں انہیں دیکھ کر بجائے مسلمان ہونے کے کبھی کبھی سِکھ ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے ،ان کو نبوّت محمدیہ ﷺکے سب سے بڑے مذاق شناس حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ اثر یاد رکھنا چاہیے،جسے بخاری کی شرح میں علامہ محمود بدر الدّین العینی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے : اَنَّہ رَاٰی رجُلاًقَدْتَرَکَ لِحْیَتَہُ حَتّٰی کَبُرَتْ فَاَخَذَیجذبُھَاثُمَّ قَال اِیتُونِی بِحِلْمَتَین ثُم اَمَرَرَجُلاًفجَرَّمَا تحت یدہ۔ ترجمہ:انہوں نے دیکھا ایک آدمی کو جس نے چھوڑ رکھی تھی اپنی داڑھی اتنی کہ بہت بڑھ گئی تھی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس کی داڑھی پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہے تھے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے قینچی منگائی اور ایک آدمی کو حکم دیا تو اُس نے داڑھی کا جتنا حصّہ ہاتھ کے نیچے تھا (غالباًبہ مقدارِ قبضہ چھوڑ کر) چھانٹ دیا