حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ہر رنگ ہے تیرے آگے پھیکا مہتاب ہے پھول چاندنی کااعلا ء ُالسُّنَنْ میں ہے : وَفِیْ لُبْسِ الثِّیَابِ المنُسُوجَۃِبالذَّھَبِ وَاْلفِضَّۃِوَجَھَان وَالصَّوابُ القطعُ بالجواز۔(43)’’سونے چاندی کی تاروں (یادیگر دھاتوں سے مزیّن)لباسوں میں درست بات تو یہ ہے کہ عورت کے لیے جائز ہیں ‘‘(۱۲۱)اُونی ،سُوتی ،ریشمی ،باریک ،مشہور ومعروف وغیرہ : ریشمی ،سوتی ، جسم کو چھپانے والا باریک یا موٹا،الغرض ہر لباس خواتین کے لیے اسلام نے جائز رکھا ہے ،خالص ریشم مردوں کے لیے حرام ہے اور جب محبوبِ خدا ﷺسے پوچھا گیا کہ ریشم خواتین کے لیے کیسا ہے ؟آپ ﷺنے خوب جواب دیا :’’انَّمَاھُنَّ لُعَبُکُمْ فَزِیِّنُوْھُنَّ بِماشْٔتُمْ‘‘ (44)’’خواتین تمہاری دل جمعی کا سامان ہیں ،تم ان کوجس چیز سے چاہوزینت دواورآراستہ کرو!‘‘ ؎ گر حقیقت نگر ہو چشم تو وہ جلوہ ہر رنگ میں دکھانے لگے معلوم ہواکہ خالص ریشم جو بہت مہنگا ہوتا ہے ،وہ بھی خواتین کے لیے جائز ہے تو اس وقت کے ریشمی کپڑوں کی بدرجہ اولیٰ اجازت ہے ۔البتّہ اطباء کا اتّفاق ہے اور اب لوگوں کو سمجھ بھی آرہی ہے کہ سُوت (کاٹن ) آرام دہ ،صحت کے لیے مفید اور انسانی فطرت کے بہت قریب ہے ،اسی کی طرف سُنّتِ رسول ﷺراہنمائی کرتی ہے ، موسم کے مطابق بھاری لباس بھی آپ ﷺنے استعمال فرمایا ہے، اس لیے ہر کسی کے لیے ہلکا ،بھاری لباس،(اپنی طبعی وموسمی ضرورت ) کے مطابق مسنون ہے بس یہ خیال رہے کہ کوئی صورت ایسی نہ ہوجائے جس سے اللہ تعالیٰ خوش نہ ہوں ۔ ؎ کٹنے میں رگوں کے نہ صداآہ کی نکلے ہر رنگ میں بُو الفتِ اللہ کی نکلے(۱۲۲)مفروشات ،گدّے ،تکیے اور چار پائی: انسان ہزاروں سال زمین پہ سوتا رہا ،ایک فطری ضرورت ہے کہ اپنے نیچے کوئی نرم چیز بھی رکھ لیتاہے اس لیے محدّثین نے سیدنا محمد کریم ﷺکے عمل کی وضاحت کو ضروری سمجھا تا کہ ایک مسلمان ’’حُسنِ سُنّت ‘‘کا استفادہ کر سکے ،نہ مرضی و خود غرضی اور رواج پہ چلے اور نہ کسی بے آرامی میں مبتلا ہو ۔اس سلسلے میں چند باتیں سمجھ جائیں (۱) چار پائی :اس کاوُجود جناب مدنی کریم ﷺکے گھر میں تھا ۔(45)اس لیے چار پائی یا اس جیسی کوئی چیز ،بیڈ،تخت وغیرہ حسبِ ضرورت استعمال کی جاسکتی ہیں (۲) گدّہ: چمڑے کاتھااس میں کھجور کی چھال تھی(آرام و راحت کے