حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
میں داخلہ سے بھی محروم رہیں گے اور دُورسے بھی جنت کی خوشبو نہ پائیں گے حا لانکہ جنت کی خوشبو تو پانچ سوسال کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے )(20)اس سلسلے کے متعدّد واقعات دربار رسالت مآب ﷺمیں دیکھے اور سنے گئے جن میں خضاب کاتذکرہ ہے۔(۳) حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکے خادم ِ خاص تھے ، فرماتے ہیں کہ حضور ﷺکو تو بال رنگنے کی ضرورت ہی نہ رہی کہ بہت کم بال سفید ہوئے البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مہندی میں کتم (بوٹی)کو ملا کر (اسے سبزی مائل کر لیا ) اور بال رنگے ۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہندی سے ان کو سرخ کر دیا ۔ (21)ایک شخص آپ ﷺکی خدمت میں مہندی سے بال رنگ کر آیا،آپ ﷺنے فرمایا :اچھا ہے ،ایک شخص نے مہندی میں وسمہ ملا کر بالوں کو برائون رنگ کرلیا،آپ ﷺنے اسے بھی پسند فرمایا ، پھر ایک آدمی آیا جس نے بالوں کو زرد رنگا ہو اتھا ،آپ ﷺنے فرمایا:ھٰذااَحْسَنُ مِنْ ہٰذاکُلِّہٖ۔(22) یہ رنگ تو سب سے اچھا ہے ؎ لکھا ہے تیرے روپ کا ہالہ اور کسی کے گرد سجاہے ان دونوں احادیث میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ خالص سرخ مہندی میں کوئی دوسرا رنگ ملا کر مہندی کا رنگ سیاہی مائل (برائون) یا سبزی مائل کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین استعمال کرتے تھے ۔اور یہ کا م وہ حضور ﷺکی مرضی سے کرتے تھے ۔ معلوم ہو گیا کہ مہندی اچھا ہئیر کلر ہے ، جو مسنون بھی ہے اور بے ضرر بھی ،خلفائِ راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کو بھی رسول اللہ ﷺنے اپنی سنّت کے ساتھ قابلِ اتباع قرار دیا ۔(23)(۱۲۹)مونچھوں اور داڑھی میں خوبروئی اور حُسنِ سنّت : پوری انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ چہرے کے بالوں کو مردانہ حُسن کے خلاف نہیں سمجھا گیا ۔یہ بال سب نبیوں نے حُسن و جمال کا ذریعہ سمجھے ہیں ۔کفار نے نبیوں پر بڑے بڑے اعتراضات کیے ہیں ،کسی نبی کے متعلّق یہ نہیں لکھا گیا کہ ان کی داڑھی کو برا کہا گیا ہو یا کسی نے خلافِ جمال قرار دیا ہو ، گویا یہ فطری سنّت ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے ،حضرت ہارون علیہ السّلام کی داڑھی کا ذکر سوُرئہ طٰحٰہ آیت نمبر ۹۴ میں ہے ، لوگ اس سنّت کے متعلق کمی اور زیادتی کا شکا ر ہورہے ہیں ۔داڑھی کٹوانے کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس عمل کی وجہ سے نبی اکرم ﷺکے ساتھ مشابہت کم ہوجاتی ہے ،اورغیر مسلموں سے مشابہت بڑھ جاتی ہے (24)جبکہ ایک مسلم کے لیے