حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
حکمِ رسول،حکمت وموعظت اورعورت کاتحفّظ: ایسے حالات میں یہ سمجھنا بہت آسان ہوجاتاہے کہ حضور ﷺنے چاندی کے زیور کامشورہ کیوں دیا ؟یاد رکھیے !یہ ایک مشورہ ہے حکم نہیں ہے ، اس کے خلاف کرناگناہ نہیں اور ہر گز نہیں ۔اسے ترغیب کہتے ہیں ۔یہ دنیا مشکلات اور آسانیوں سے مرکّب ہے ،سیّدنا محمد کریم ﷺاُمّت کی بیٹیوں کے لیے یہ سُہولت چاہتے ہیں کہ وہ کم قیمت دھات سے زیور بنالیں ، چاندی کی جگہ سونے سے گذارہ کرلیں تاکہ کبھی گم ہوجائے ،تو بہت زیادہ افسوس نہ کرنا پڑے اور پھر سے بنانا ،خریدنا آسان ہوجائے ،زکوٰۃ کم واجب ہو ۔اگر سونا استعمال کرلیں توکوئی حرج نہیں ، شرائط اور طریقِ استعمال کا علم ضروری ہے ،اس قسم کی بلکہ اس سے کہیں زائد پابندیاں تو ڈاکٹر بھی لگادیتے ہیں کبھی شوگر ،کبھی بلڈ پریشر اور کبھی دل کی بیماریوں کی وجہ سے بہت سی حلال اور طیّب اشیاء ہم صرف اس وجہ سے چھوڑدیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا علم ہم سے زیادہ ہے ۔وہ ہمارے خیر خواہ ہیں جبکہ ایک اُمّتی کے لیے اس کے نبی ﷺسے بڑھ کر کوئی بہی خواہ نہیں ہوسکتاہے ،ڈاکٹر کے ٹیسٹ اور نبض شناسی غلط ہوسکتے ہیں ،وہ بے جاپر ہیز بھی کر واسکتاہے جبکہ ایک نبی کو اللہ تعالیٰ اپنے علم میں سے علم نصیب کرتے ہیں ،اس میں غلطی کا امکان نہیں البتّہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوسکتی ہے کہ ماہرین کی جگہ ہم خودسُنّتِ رسول ﷺکوسمجھنا شروع ہوجائیں تو اس میں کسی کا قصور نہیں ہے جیسے چاندی کے استعمال کی حدیث سے سونے کو حرام سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟یاد رکھیے ! یہ خدمتِ دین نہیں ،کچھ اور ہے ؎ رہزنی ہے کہ دلستانی ہے لے کے دل دِلستاں نہ ہوا(۱۴۲) انگوٹھیاں ہار چھلّے ،زیوراوران کے صدقات : عہدِنبوی ﷺمیں مردوعورت سب ہی انگوٹھیاں پہنتے تھے ،آپ ﷺنے مردوں کو تھوڑی سی چاندی (ساڑھے چار ماشے سے کم وزن ) کے علاوہ ہر قسم کی انگشتری منع فرمادی(32)اور عورتوں کو لوہے اور تانبے کے علاوہ ہر دھات سے انگو ٹھی بنوانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔آپ ﷺنے خود بھی انگوٹھی استعمال فرمائی تھی،جو چاندی کی تھی اور اس پر نگینہ بھی بناہوا تھا ،حدیث مبارکہ میں ہے : ’’عَنْ اَنسٍ وَکَانَ فَصُّہُ مِنْہُ‘‘(33)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکی انگوٹھی کا نگ چاندی کا تھا ‘‘سیدنا