حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
پیٹھ پر وہ جم کر نہیں بیٹھ پاتے لہٰذا یہ کمزوری دُور ہو،اور آپ ﷺنے دعا کی ،جو قُبول ہوئی ،بہر حال! یہ سواریاں جہادوتجارت کے علاوہ تفریح کے لیے بھی تھیں ۔(۸۳)دوڑ،گُھڑ سواری ،کُشتی ،مجاہدین کے مقابلے اور انعامات : ٭حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے ایک دن لُٹیروں کو ناکو ں چنے چبوائے اور تنِ تنہا دوڑ کر ان کا مقابلہ کیا ،پھر کامیاب و کامران ہو کر حُضورِ اکرم ﷺسے شاباش لی اور قافلہ ء رسُول ﷺکے ساتھ مدینہ کی راہ لی ،شہر پُر وقار کی طرف ابھی ان کا یہ سفر جاری تھا کہ کسی نے ان کے ساتھ اپنا گھوڑا دوڑا نا چاہا ، ان سے رہا نہ گیااوراسپ سواری میں ان سے بھی بہت آگے نکل گئے ۔(27)سیر کی کتابوں میں یہ واقعہ کئی دلچسپ پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ، حُضورِ اکرم ﷺمقابلے کی دوڑ کو دیکھتے رہے ،مسکراتے رہے اور داد دیتے رہے ،پھر فرمایا :ہمارے ’’بہترین سوار ‘‘ابوقتادہ اور ’’سب سے تیز رفتارچلنے والے ‘‘حضرت سلمہ ہیں (28)گویا یہ انسانی چال کا حُسن تھا جو ہمارے محبوب ﷺکو پسندآیا ،جو چلن ان کی پسند کا نہ تھا اور جو بول ان کونہ اچھے لگتے تھے، ان کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا:وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۔ اور اپنی چال میں اعتدال کیے رہنا اور بولتے وقت آواز نیچی رکھنا، کیونکہ (اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں )کہ سب سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔(29)ان دونوں مجاہدین کے لیے دربارِ نبوی ﷺسے ملنے والے یہ القاب ان کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے کافی تھے ۔٭سیدِ دوعالم ﷺجہاد کی تیاری، صحت وقوّت کے لیے اور اہلِ اسلام کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور صاحبانِ ہُنر کی حوصلہ افزائی و تعارف کے لیے کھیلوں ، جہادی آلات کے استعمال اور فُنونِ حربیہ کے مقابلے کرواتے رہتے تھے۔اپنے عزیز شاگردوں کی کارگر دگی پر خوش بھی ہوئے اور بعض اوقات انعامات بھی دیے ،حضرت سعد بن مالک ساعدی رضی اللہ عنہ کویمنی چادر اور حضرت ابواسیدمالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حُلّۂ یمانی عنایت فرمایا ۔(30)رحمتِ دوعالم ﷺنے اپنے جاں نثاروں کے فنِ اسپ سواری اور کشتی لڑنے میں مسابقت کروائی،دوبار کا ذکر احادیث کے ذخیرے میں اس طرح ملتاہے کہ ایک کی اِنتہائی علامت مسجد بنی زریق تھی اور دوسرے مقابلے میں آخری حد ’’ثنیۃُالوَدَاعِ‘‘ تھی ،حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے بھی اس مقابلہ میں حصّہ لیا تھا ۔(31)اس قسم کے کھیلوں کا ایک مقصد عملِ جہاد کے لیے مسلسل تیاری اور مستعدی بھی