حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
صحابہ رضی اللہ عنہ ،تابعین اورائمہ رحمہ اللہ کاذوقِ لباس: لباس میں جمالِ مقصود ہے ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ عنہم اجمعین، ائمہ مجتہدین اور بزرگانِ دین اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک زیب تن کیا کرتے تھے۔بہت سے اکابرِ حق جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطافرمائی تھی اکثر عمدہ اور بیش قیمت لباس استعمال کرتے تھے ۔(۱):وَقَدْرُوِیَ اَنَّہُ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ خَرَجَ وَعَلَیْہِ رِدَائٌ قِیْمَتُہُ اَلْفُ دِرْہَمٍ(43)یعنی ایک دن آپ ﷺباہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ ﷺنے ایسی چادر لی ہوئی تھی جس کی قیمت ہزار درہم تھی ‘‘(۲)’’عَنْ ابْنِ جَابِرٍ:اَنَّ تَمِیْماًالدَّارِیَ اِشْتَریٰ رِدَائً بِاَلْفٍ وَ کَانَ یُصَلِیْ فِیْہِ‘‘(44)یعنی:حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ نے ایک چادر ہزار درہم میں خریدی اور آپ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے ‘‘(۳):عَنْ نَافِعٍ اَنَّ ابْنَ عُمَرَ رُبَّمَا لَبِسَ الْمُطَرِّفَ الخَزَّثَمَنُہُ خَمْسُ مِائَۃِ دِرْھَمٍ۔(45) یعنی:’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے شاگردِخاص حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کبھی کبھار پانچ سو درہم کی مالیت والی مخلوط ریشم کی بنی ہوئی منقش چادر استعمال فرمایا کرتے تھے (46) ٭عَنْ عُثْمَانَ ابْنِ اَبِی سُلَیْمَانَ اَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَااِشْتَرٰی ثَوْباًبِاَلْفِ دِرْھَمٍ فَلَبِسَہُ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے ایک کپڑا ایک ہزار درہم کا خریدااور اسے پہنا٭وکان ابوحنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ یرتدی بردائٍ قیمتہ اربع مائۃدینارِوکان یامرا صحابہ بذلک وکان محمدیلبس الثیاب النفسیۃ(47)حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ ۴۰۰دینا ر مالیت کی چادرپہنا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی عمدہ لباس کی نصیحت فرمایا کرتے تھے (یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگردِ خاص)حضرت امام محمدرحمہ اللہ نفیس کپڑے زِیبِ تن فرماتے تھے ‘‘اس کی خاص وجہ یہ ارشاد فرمائی :میری یہ خوش لباسی اس لیے بھی ہے کہ میری کئی بیویاں اور باندیاں ہیں میں اپنی آرائش کا اہتمام کرتاہوں تاکہ میرے علاوہ کسی کی طرف توجہ نہ کریں فقہاء ِاسلام نے جمال آرائی کو اس ارشادِ نبوی کی بناء پر مستحب قرار دیاہے :ا للہ تعالیٰ کویہ پسند ہے کہ اس نے بندے پر جو انعامات کیے ان کے اثرات اس پر دیکھے۔شکرِنعمت ہے ملبوسات میں دلچسپی: لباس میں عمدگی اللہ کا عملی شکر ہے دراصل جب کسی بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو اس کو اس طرح رہنا چاہیے کہ دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے ۔یہ شکر کے تقاضوں میں سے ہے ۔ اس لئے حضورﷺنے مالک بن فضلہ رضی اللہ عنہ کو مال داری کے با وجو د گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا:کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے ؟انہوں نے عرض کیا :جی ہاں !آپ ﷺنے پھر پو چھا :کس نو ع کا مال ہے ؟عرض کیا :