حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
چناچہ ان کی زوجۂ مطّہرہ اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ آپ ﷺسے غسل میں سردھونے کا مسئلہ پوچھا اور عرض کی :’’اِنیّ امْرَأۃ اَشَدّضفررَأسِی‘‘(11)’’میں بہت زیادہ مینڈھیاں بنانے والی عورت ہوں ‘‘تو کیا غُسلِ جنابت کے لیے مجھے یہ مینڈھیاں کھولنی چاہییں ؟۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات بالوں کو محفوظ رکھنے کی تاکید کرتی ہیں ۔ تجربہ شاہد ہے کہ حُضور ﷺکے نُورانی طریقہ ہی میں سُکون بھی ہے اور زینت بھی ، کھلے بالوں کی زینت بھی عارضی ہوتی ہے اور سُکون بھی ناپیدر ہتا ہے ،ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ارشاد فرمایا:تم عورتوں کو حکم دیتے ہو کہ وہ غسل کے لیے اپنے بالوں کو ضرور کھولیں ،یہ حکم دیناتودُرست نہیں ،بلکہ یہ کافی ہے کہ وہ جڑوں تک پانی پہنچا دیں ، غسل ہوجائے گا،ان دلائل سے پتہ چلا کہ عورتوں کے لیے سنّت طریقہ بالو ں کو باندھ کر رکھنے کا ہے ۔(۱۲۵)آئینہ ،کنگھا اور نبوّتِ محمدی ﷺکا معیارِ نظافت : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نُبوّت کے اعمال کی گواہ ہیں ان کی شہادتوں کو دین سے نکال دیا جائے تو باقی دین بھی نامکمّل نظر آتاہے ۔وہ فرماتی ہیں :کہ حضورﷺکی مسواک اور کنگھا تو مسجد سے کبھی جداہی نہ ہوتے تھے،(یعنی جب نماز کے لیے جاتے تو بال درست کرتے)جب آپ ﷺداڑھی مبارک کو کنگھا کرتے تو آئینہ بھی دیکھتے تھے ،اگلی روایت ہے کہ کنگھا ، شیشہ ،مسواک تیل اور سُرمہ دانی تو سفر میں بھی ساتھ رکھتے تھے ’’(12)‘‘آئینہ دیکھنے کی دعا کا بغور مطالعہ کیا جائے توہمیں معلوم ہوگا کہ حضور ﷺکی ترجیح یہ نہ تھی کہ انسان زینت ہی کومحلِّ نظر بنالے ،بلکہ اصلاحِ اخلاق اور حُسنِ خصائل و عادات کی زیادہ ضرورت ہے ، عادات و اخلاق کی اصلاح کی کوشش بھی کرے اور دعا بھی کرے ، آپ ﷺآئینہ دیکھتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے’’اللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّن خُلُقِیْ‘‘(13)’’اے اللہ !آپ نے میری صورت کو اچھا بنایا،میرے اخلاق کو اچھا کردے ‘‘ اس دعا میں حُسنِ صورت کے ساتھ حُسنِ سیرت کی ترغیب ہے ، انسان خوبرو ہے،لیکن اگر اس کا بول چال اچھا نہیں ہے، لوگوں سے بات کرتاہے تو رشتے ناتے خطرے میں پڑ جاتے ہیں ،فساد ہوجاتاہے ،دلوں پہ زخم کرنے والے اشارے اور اس قسم کی باتیں کرنا اس کی عادت ہے تو یہ شخص حقیقی خوبصورتی سے محروم ہے ۔دنیا میں بے شمار لوگ صرف اپنی خوش کُن ادائوں اور حُسنِ معاملات کے طفیل محبوب و مرغوب ہیں اور اس کے بر خلاف کر وڑوں حسینوں کو اس لیے اپنے گرد و پیش میں