حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
گذاری جس سے تاقیامت لوگ سبق حاصل کرتے رہیں گے ۔اور زندگی کے ہر شُعبے میں راہنمائی پائیں گے ۔یہ ہوتی ہے زندگی ! ؎ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی آج جبکہ پُوری دنیا میں اللہ کے دین کے مخالف (یہود و نصارٰی)اپنی صنعت و حرفت کی وجہ سے اور مال ودولت کی کثرت سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث مسلمانو ں پر غالب آتے جارہے ہیں ، وہ اہلِ اسلام کے جوانوں اور سپیشلسٹ (spacialist) کو کوڑیوں کے مطابق تنخواہیں دے کر اپنی غلامی کر واتے ہیں ،ان حالات میں مُسلم ممالک کے اہلِ حل وعقد کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کے بہترین دماغوں کی صلاحیّتوں کی قدر کریں ۔اسلامی معیشت،کتاب وسُنّت اور فتاوٰی ائمہّ: ذرادھیان دیجیے،کیا اور کسے کہا جارہا ہے:وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ۔أَنِ اعْمَلْ صَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِیْ السَّرْدِ وَاعْمَلْ صَالِحاً۔’’اور ان کے لیے ہم نے لوہا نرم کردیا(اور کہا)کشادہ زرہیں بنائو اور کڑیوں کو اندازہ سے جوڑو‘‘جی ہاں !یہ سورۃسبا ء کی آیت نمبر ۱۰،۱۱کا مفہوم ہے ،کہنے والے اللہ ہیں وہ حکم دے رہے ہیں اپنے نبی محترم حضرت دائودعلیہ السّلام کو لیجیے !صنعت سازی کو چار چاند لگ گئے لوہا کاری میں ایک نبی کو شامل کر کے اللہ نے فرمایا ’’اور نیک عمل کرو،جو عمل تم کرتے ہومیں دیکھنے والاہوں ‘‘یہاں نیک عمل سے پہلے حکم ہے مخلوقِ خدا کے کام آنے والی چیزیں بنانے کا۔ان آیات کے بعد وہ آیتیں ہیں جن میں ذکر ہے، اس قوم(سبا) کا جو پائے کے صنعت کار لیکن ذکر الٰہی سے دُور اور شُکرِ خدا سے دُور ہوئے توہلاک وذلیل ہوئے۔پُوری دنیا کے بڑے رہنما حضرت مُحمد ﷺنے فرمایا:مئو من کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے ۔(56)اہلِ ایمان کی ترقی کے لیے آپ ﷺنے تجارت جیسے بین الاقوامی فن کے فضائل بھی بتائے ،خود بھی کی اور اس کے ساتھ ساتھ دست کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی، تاکہ اسلام بلند ہو ۔مزید فرمایا :اللہ بلند مرتبہ کاموں کو پسند کرتے ہیں اور نچلے درجے کے کاموں کو ناپسند کرتے ہیں ۔اس حدیث میں ’’نچلے درجے کے کام‘‘ترجمہ ہے ’’سَفْسَافٌ‘‘کا ۔سفساف اس باریک ترین آٹے کو کہتے ہیں جو گندم پیستے وقت ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔(57)یعنی مسلمانوں کو جہاں تک ممکن ہو بڑے کاروبار کرنے چاہئیں ، بقولِ غالب ؎ عمر ودولت پہ شادماں رہیں اور غالب پہ مہرباں رہیں