حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
مجسّم نبی ﷺکا دیا ہوا نظام ہے جوانسان کو نہ غلاظت و ناپاکی اجازت دیتاہے اور نہ ہی طہارت اور خوبصورتی میں حد سے بڑھاتاہے اور یہی وہ حسنِ بندگی ہے جو ایک صاحبِ ایمان کے ہر کام میں نظرآتاہے ۔ اسی وجہ سے حضور ﷺکے غلاموں نے پوری دنیامیں اپنا لو ہامنوایا۔ ؎ وہ خود کیا ہوں گے جن کی پیروی سے غلاموں کو ملی ہے کج کلاہی لباس و زینت میں اسراف اور دکھلاوے سے بچنا بہت ضروری ہے ، آپ ﷺنے فرمایا :کسی شخص نے لباسِ تصوف پہنایالباسِ سنت لیکن لو گوں میں شہرت کے لیے پہنا یہ شخص اللہ سے دور اور جہنم کے اندر جانے والا ہو جائے گا (35)معلوم ہوا کہ لباس خلافِ سنت نہ بھی ہو تب بھی رضائے الٰہی اور اتباعِ سنت کی نیت کے بغیر کامیابی ناممکن ہے ۔(۲۵) ارشاد ِرسُول ﷺمیں ’’سادگی ‘‘کا صحیح مفہوم : جناب رسالتِ مآب ﷺجو دین لے کر آئے ہیں وہ بہت آسان زندگی پیش کر تاہے ، آپ ﷺنے فرمایا:’’اَلْبَذَاذَۃُمِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ (36) ’’ سادگی ایمان کا حصہ ہے :بذاذۃکے معنٰی نضْرۃالنّعیم میں ترکِ زینت ’’لباس وغیرہ میں تواضع ــ‘‘لکھے ہیں ۔یادرکھیے !فرمانِ رسالت ﷺمیں سادگی کا مفہوم نظافت میں سستی نہیں ہے لوگوں کو حضو ر ﷺکی سُنّت سے دور کرنے کے لیے سادگی کا ایک مفہوم یہ بھی لیا جارہا ہے کہ انسان کئی دن غسل نہ کرے ،کپڑے بھی میلے رکھے ، اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کا جائز استعمال بھی نہ کرے ۔ حالانکہ یہ مطلب شریعت سے متصادم ہے ،اور جو معنیٰ اوپر پہلے بتائے گئے ہیں اس معنیٰ کے لحاظ سے ترکِ زینت کا نام سادگی ہے ،اور وہ زینت جو تعیّش کی حدود کو چھونے لگے یعنی بیش قیمت لباس کو دیگر فرائض سے زیادہ ضروری سمجھے،بہت اعلیٰ خوشبو کا دلدادہ ہی ہو جائے ،کم درجہ خوشبو کو شجرِ ممنوعہ سمجھے ،حیثیت سے بڑھ کر لباس ،جوتے رہن سہن ، سواری وغیرہ پر صرف اس وجہ سے خرچ کرے کہ اس کامعیار ِزندگی لو گوں میں معروف ہو چکا ہے تو خیال رکھیے کہ بعض اوقات یہ نظریہ تکبّر کی حدود چھونے لگتاہے ۔ ؎ تکبّر لے رہاہے امتحاں پھرعزم کا ستاروں کو مرے زِیرِ۱اثر کرتاہوا(۲۶)نبی اکرم ؐ،خلفائِ اسلام اوراسلافِ امت کاذوقِ لباس: