حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
حسین ہیں اور جو ان کو اپنا لے اسے بھی حسین بنادیتے ہیں ۔ہم کسی انسان کے غلط اعمال دیکھ کر اس کی کثافتِ روح وضمیر اور اس کے اچھے اعمال کے ذریعہ اس کی حسین روح کا اندازہ لگاتے ہیں کیو نکہ انسان جن اعمال کو انجام دیتاہے اگر ہم بیدار روح کے ساتھ انہیں ملاحظہ کریں تومعلوم ہوگا کہ اچھے اعمال قلبِ منوّر سے جبکہ برے اعمال قلبِ بے نور سے صادر ہو تے ہیں وہ روح جواحکامِ الٰہی کے مطابق انتہائی حسین اندازمیں اعضاو جوارپر حکمرانی کرتی ہے ،وہ کبھی منشائِ رسول ﷺکے مطابق اپنے قاتل کے حق میں حق و انصاف کی رعایت کی درخواست دیتی ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔اور کبھی دوسرے مختلف میدانوں میں روح کے اعلیٰ کردار کا مشاہدہ کرتے ہیں توایسی باعظمت اور حسین روح کا تصوّر ہمارے حسن پسند ذوق و شہود کو تحریک کرتاہے اور اس حد تک آگے بڑھتاہے کہ یہ عالمِ امکان جس میں ایسی روح نے پرورش پائی ہے ،وہ ہمارے لئے حسین ہوجاتاہے ۔ الغرض :حسن ایمانی سے مزیّن روح ہی انسان کا وہ امام ہے جس کی اقتداء اسے عالم بالاتک رسائی دیتی ہے ۔فکرِصحیح،حکمتِ حجاب اورروح کی پاکیزگی: حضور نبی رحمت ﷺکو اُمّت کے لیے آراستگی کا حکم دینے کا ارشاد اس لیے ہوا کہ خداوندِ عالم نے انسان کو خوبصورت روح اور فکر کے ساتھ بنایا ہے اور اسے اپنی فطری صلاحیت استعمال کرنے سے منع نہیں فرمایا کہ یہ بات حکمت اور صحیح فکر کے خلاف ہے ، مزید احسان یہ کیاکہ انسان کو جو صلاحیّت بھی عطاکی گئی ہے اسے کمال تک پہنچانے سے منع نہیں فرمایا ،یہ بات حکمت کے خلاف ہے کہ مرد تو خوبصورتی کو چار چاند لگائیں اور عورتیں محروم رہیں ، حضورﷺنے ان کو بھی حکم دیا کہ زینت کے لوازمات پورے کریں ان کے لیے تیل کا استعمال اور سرمہ لگانابھی مستحب قرار دیا گیا ہے۔اگر عورتیں یہ کام انجام دیں تو انہیں الفت و مَحبّت سے لبریز ازدواجی زندگی مُیّسر ہوتی ہے اور وہ دوسرے مردوں اورعورتوں کو دیکھ کر کسی کمی یا کمزوری کا احساس نہیں کرتی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺعورتوں کو شوہروں کی خاطر زینت کرنے کو ضروری سمجھتے تھے ۔صرف نامحرموں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کرنے کی مُذمّت کرتے تھے ۔اسی کی تائید میں قرآن کایہ ارشاد نازل ہوا ہے :’’وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘‘ (17)(اور مؤمنات سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچارکھّیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جواز خود ظاہر ہے) یعنی اس کے لباس اور اس کی بڑی چادر پہ کسی غیر محرم کی نظر پڑجائے جو پر دے کے لیے اوپر لے رکھّی ہے تواس