حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ساتھ حیسہ نامی کھانے کا ذکر بھی ہے جو فرمائشِ نبوی ﷺپر بنایا جاتاتھا ۔کجھور ،ککڑی، پھل، خربوزہ بطیخ ،شہد اور مختلف مصنوعاتِ تمرکا تذکرہ بھی ملتاہے ۔(45)الغرض : سیرتِ حبیب ﷺہمیں ہر اُس کھانے پینے اور کھلانے پلانے کی اجازت دیتی ہے جو حلال ہو ،انسانی صحت کے لیے مفید ہو ،اسے ضایع ہونے سے اور ریا کاری کا ذریعہ بننے سے بچا جائے ،اس میں غرباء کا حِصّہ بھی ہو توسُبْحَان اللّٰہ’’نُورُٗعَلیٰ نورٍ‘‘ہے ۔(۱۰۷)’’اَلْحَلْویٰ‘‘پھلوں کے مرکّبات اور اسرارِ صحت : میٹھی چیزوں کا استعمال نظام ِ مَعَاشرت میں عام رہا ہے نبی رحمت ﷺبطور تفکّہ (الحلْوٰی)میٹھا پسند کرتے تھے ۔یہاں حلوا سے وہ مُروّجہ کھانا مراد لینا (جو ہمارے شہروں میں رائج ہے )نادُرست ہے ، اس کے مفہوم میں ہر میٹھی چیز شامل کی جائے تو بہتر ہے ، ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :وہ تمام اشیائے خورونوش اس میں داخل ہیں جنہیں بطورِ تفکّہ لذیذوشیر یں اشیاء سمجھ کر کھایا جاتاہے ،لہٰذا اس میں معروف حلوہ ، کھجور ،شہد ،فالودہ اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن میں مٹھاس ہو ،وہ فطرۃً پھلوں کی صورت میں ہوں یا مختلف چیزوں کو ملا کر روح پرور بناگئی ہوں جیسے نبیذ، تلبینہ اور حیس وغیرہ عہدنبوی ؐکی چیزیں ہیں او ربعض صوفیا ء کا ان میٹھی چیزوں سے روکنا اوریہ کہنا کہ حدیث میں ’’اَلحْلْویٰ‘‘سے مراد وہ پھل ہیں جو شیریں لذّت رکھتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(46)بقول اسماعیل میرٹھی ؎ کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک یا مقدّر میں اس کے تھی ہی نہیں دربارِ رسالت ﷺمیں میٹھے کھانے اور شیرینی کا ایک اور زاویہ دیکھا گیا کہ سیدنا محمد کریم ﷺکھجور اور دودھ کو یکجا کر کے کھاتے ہیں اور فرمایا:’’یہ دونوں نعمتیں (اَلْاَطْیَبَیْن) پاک ترین ہیں ۔(47)اس قسم کے مرکّبات پر صدیوں سے طبّی تحقیقات ہو رہی ہیں انہیں انسانی صحت کے لیے مفیدترین بتایا جارہا ہے ،دراصل نبی کی کسی بھی ادا میں بے شمار فوائد ہوسکتے ہیں ، وقت کے پیغمبر مجمُوعہء خیرات اور’’ مَجْمَعُ البَرَکات‘‘ہوتے ہیں ،طِبّ نبیﷺکی تعلیم ہے کہ پھلوں کو ایک خاص مقدار میں میں ملا کر کھانے سے ان میں موجود حرارت و بُرودت میں امتزاج ہو جاتا ہے اور کبھی تُرشی و شیرینی یکجا ہو کر ایک تیسری دوایاغذا کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں ۔امام بخاری رحمۃاللہ علیہ وابنِ حجر رحمۃاللہ علیہ و غیرہ حضرات جہاں دو دو پھلوں ،نباتات اور ماکولات و مشروبات کو ملا کر استعمال کا جواز لکھتے ہیں ،وہاں وہ ان کے طبّی فوائد پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے فتح