حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
پھر لمبا سلسلہ ہے ، بے خوابی ، ذہنی کو فتیں ، چڑاچڑا پن ، اپنے سے دُوری ،رشتوں کے تقدّس کی پامالی اور خدا سے دُوری ،جس کی وجہ سے جوانی خوبصورت ترین زندگی کی تعمیراور حصولِ تعلیم و تربیت سے ہٹ کر ذِلّت و عذابِ دنیا کی نذر ہوجاتی ہے ؎ گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح(۹۵)حقیقی حُسن حسنِ گفتار ،علمِ نافع اورادبِ صالح: ایک دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ (عمِّ نبی علیہ السّلام )آپ ﷺکی خدمت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ ان پر ایک خوبصورت حُلّہ تھا ،بالوں کی میڈیاں (کاندھوں کو چھو رہی تھی )،سفید و سرخ (رنگ آج مزید نکھر ا جاتا تھا )نبی مکرم علیہ السلام کی نظر پڑی تو آپ ﷺمسکرائے (آپ ﷺکو مسکراتے ہوئے دیکھ کر )حضرت عباس رضی اللہ عنہ عرض پیرا ہوئے :اے اللہ کے رسو ل!آپ کیوں مسکرائے ؟اللہ آپ کو ہنستا مسکراتا رکھے !آپ ﷺنے فرمایا:چچا جان!آپ کی خوبصورتی مجھے بہت بھلی لگی(جس پر میں مسکرایا)پھر پوچھا :اے اللہ کے رسول!ایک مرد کا (حقیقی )جمال کیا ہے ؟ارشاد ہوا :زبان کا درسست استعمال ! (34) اپنے چچا کو نبی محترم علیہ السّلام جس طرزِ ادا کی طرف بلارہے ہیں وہ آپ ﷺکا اسوئہ حسنہ ہے خود آپ ﷺکلام فرماتے تو ہیرے اور موتی جھڑتے تھے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں کو روشن کر دیتے تھے ۔ میرا نیس کے اس کلام کے سہارے آپ ﷺکے اندازِ تکلّم پر اظہار خیال منا سب سمجھتاہوں ۔ ؎ ہے لعل و گوہر سے یہ دہن کانِ جواہر ہنگام ِ سخن کھلتی ہے دُکّانِ جراہر ایک روایت ہے کہ سیدِلولاک ﷺنے پیارے چچا کو ان الفاظ میں دعا بھی عنایت کی :اللہ آپ کے جمال فصاحت و بلاغت میں برکت دے ۔(35)اس حدیث سے معلوم ہو اکہ حُسنِ گفتار ،حُسنِ ادب اور حُسنِ تعلیم ایک مرد کا زیور ہیں ،حکماء کا قول ہے :علمِ نافع اور ادبِ صالح ایسی کمائی ہے جو کوئی چھین نہیں سکتااور نہ بڑے سے بڑا غاصب اسے غصب کر سکتاہے ،یہ دونوں صفات ہی تیرے لیے جمال ہیں اور اس خوبصورتی کے ساتھ تیری آخرت و دنیا میں تجھے باعزّت رکھیں گی ، پس تو ان دونوں (علمِ نافع اور ادبِ صالح )کے حُصول میں پوری کوشش کر (36) ؎ یارب میرے سُکوت کو نغمہ سرائی دے زخمِ ہُنر کو حوصلۂ لب کشائی دے