حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ترجیح دی جائے ۔ یادرکھیے !دنیا داری سے کہیں بڑا گناہ دین کے نام پر دنیا بناناہے، اس لیے اہلِ علم یہ غلطی کبھی نہیں کرتے ،جب اس طبقے سے سوال ہو کہ ان احادیث پر عمل کیسے ہوگا ،جن میں عمدہ ،قیمتی اورشاندار لباس پہننے کا ذکر ہے ؟اس کے جواب میں نبی اکرم ﷺوصحابہ رضی اللہ عنہم کے وہ حالات بتائے جاتے ہیں جو انتہائی کس مپر سی کے تھے جبکہ ایسی حالت ابھی ا ن لوگوں پر آئی نہیں ؎ واعظ ثبوت لائے جومے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا ہی چھوڑ دے(۱۱۳)سفید ،موٹا،کھلااور سادہ پہناوااور علم نبی : کروموپیتھی کے اطباء تو آج سفید لباس کے ذریعے جِلدی امراض ،ہائی بلڈپریشر اور گلینڈز وغیرہ کا علاج کرتے ہیں ،ہمارے نبی علیہ السّلام نے وحیٔ الٰہی کی روشنی میں ہزاروں سال پہلے اُسے اپنایا،اس لیے کہ آپ ﷺکی مکمّل راہنمائی اللہ خود فرماتے تھے اور آپ ﷺکا ہر کام اچھا تھا ،سفید رنگ آپ ﷺکوپسند تھا،دراصل آپ ﷺکی پسند بہت اعلیٰ تھی ،شمائل ج۱، ص۳۲پر ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:میں معراج کی رات (آسمانوں کے قبلہ )بیتُ المعمورمیں داخل ہوا ،میرے ساتھ صرف سفید لباس والوں کو اجازت ملی ۔(22)اسی لیے آپ ﷺنے فرمایا:سفید پہنو اور اپنے مردوں کو اس میں کفنائو!(23)حضرت محمد ﷺکا لباس ہمیشہ صاف رہتا تھا ،سفرمیں تنگ آستین والا جُبّہ بھی ثابت ہے (تاہم عام حالات میں ان کا لباس مکمّل ،کھلا اور کُشادہ ہوتاتھا ) آپ ﷺکے علم میں تھا کہ تنگ لباس نقصان دہ ہے ،جیسے آجکل پتلون اور شرٹ ہوتی ہے،اس طرح کے بہت تنگ لباس پہننے والے لوگ ہوا اور آزادی جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں ۔(۱۱۴)نظرِبد کا عُذر شرعی نہیں ہے (علاجِ نظرِبد ): حکمِ رسول ﷺکو ماننے کانام شریعت ہے حکم ہے کہ اچھا پہنو !لیکن خدا بھلا کرے ان دوستوں کا جو مختلف دلائل سے ترکِ سنّت کرتے ہیں ،ان میں سے ایک یہ کہ اچھا پہننے سے ہمیں نظر لگ جاتی ہے،جبکہ جہاں نظر کا ذکر ہے وہاں اس کا علاج بھی مذکور ہے۔قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السّلام کے واقعہ میں مذکورہ ہے کہ جب برادرانِ یوسف علیہ السّلام نے اُن سے فرمایاکہ ’’تم سب کے سب ایک ہی دروازے سے نہ جانا بلکہ علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخلِ شہرہونا‘‘مفسرینِ کرام رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :کہ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے بیٹوں کو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے جانے کا حکم ا س اندیشہ کی وجہ سے دیا تھا کہ کہیں اکٹھے جانے سے انہیں نظر نہ لگ جائے