حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
میں اٹھاتو مجھے اطمینان ہو گیا اور بے روزگاری کی شکایت بھی نہ رہی ،ایک اُمید بندھی اور حسبِ معمول صلٰوۃوسلام کا وظیفہ جاری رکھا ،ایک دن روضۂ مبارکہ پر سلا م پیش کر کے باب البقیع سے باہر نکلاہی تھا ایک عربی کو اپنا منتظر پایا وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا اس نے نام پوچھا ،کچھ کوائف مزید معلوم کیے اور مجھے اپنی ’’کار اے سی ‘‘ کی دوکان پہ لے گیا،جہاں مجھے کام مل گیا،اس روز سے آج تک میں روزی کے سلسلے میں بہت خوش ہوں اب اس شہرمیں میری عزّت بھی ہے اطمینان و سکون بھی اور راحت بھی، یہ سچاواقعہ تصدیق کے ساتھ لکھا گیاہے،آپ ﷺنے ا س میں جو پیش گوئی کی وہ مکمل ہوئی ۔ عرض یہ کی جارہی تھی کہ آقائے نامدار ﷺکو اپنے شہرمولد مکہ مکرّمہ اور سرزمین مدینہ پر زرخیزی اور سبزہ زاری بہت بھلی لگتی تھی،یقیناترقی کے اس دور میں مختلف زراعتی تجربات کے بعد جو دیدہ زیب شجر کاری دکھائی دے رہی ہے یہ آپ ﷺکی طبعِ نفیس کے عین مطابق ہے ، آپ ﷺکو زندگی بھر سبزے سے پیار رہا ،اب مدینہ منوّرہ پورے جمال اور بہار آفرینی کے ساتھ حضور ﷺکے مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہے ؎ سر اپا چمن ہے بہار ِمدینہ دوام آشنا ہے بہارِمدینہ وہاں کی زمیں ہر جگہ سے ہے اعلیٰ جہاں دفن ہیں تاجدارِمدینہ ﷺ(۷۳)حیات وحُسنِ کائنات کے جزوِاعظم میں حُضورؐکی دلبستگی: پانی اور سبزے کے مشترک بیان کے بعد رسولِ رحمت علیہ السّلام کی وضاحت کردہ اس خوبصورت ترین چیز کا بیان ہے جس کے بغیر نہ پاکی کاتصوّر ممکن ہے اور نہ صفائی ستھرائی کامضمون مکمّل ہوتاہے یعنی وہ دوسری فرحت انگیز چیز جس کی نشاندہی سیّدنا محمد ﷺنے (چند صفحات پہلے مذکورہ حدیث میں )فرمائی یعنی وہ پانی جو زمین پہ بہہ رہا ہو،آپ ﷺنے یہ تصوّر دیاکہ جاری پانی بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ،وہ اسے دیکھتے،خوش ہوتے اور اللہ کی حمد وثنا ء بیان کرتے تھے، شاید اسی محبوبیّت اور اس کے مُفیدِعام ہونے کی بناء پر جاری پانی کا بیچنامنع ہے (46) مزیدارشاد فرمایا:سبزہ پانی اور آگ (تو قدرتی پیداوار ہیں ،یہ تو ایسی چیزیں ہیں جن کااستعمال بھی عام ہے اس لیے )سب اہلِ اسلام کی مشترکہ (نعمتیں )ہیں (47)یہ جس کے پاس ہوں اسے نرم دل ہونا چاہیے سب ایک ہی باپ کی اولاد ہیں تقسیم کر کے نعمتوں کا استعمال کرنا رب کو اچھا لگتاہے ؎