کتاب الجنائز |
|
علم میں آئی ہو ۔البتہ اِس بات کا لحاظ رکھنا چاہیئے کہ ایسے وقت میں عیادت نہ کی جائے جس سے مریض کو تکلیف ہوتی ہویا اُس کے آرام میں خلل ہوتا ہو۔اِمام غزالی فرماتے ہیں کہ تین دن کے بعد عیادت کرنی چاہیئے اور وہ دلیل میں ابن ماجہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں :حضرت انسسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺمریض کی عیادت تین دن بعد کیا کرتے تھے۔كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَعُودُ مَرِيضًا إِلَّا بَعْدَ ثَلَاثٍ۔(ابن ماجہ:1437)(فتح الباری:10/113)(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:31/78 ،79) خلاصہ یہ ہے کہ اِس بارے میں تین قول ہیں : (1)بعض حضرات کے نزدیک :سردیوں میں رات کو اور گرمیوں میں دن کو عیادت کرنا مستحب ہے۔ (2)اِمام غزالی :تین دن کے بعد عیادت کرنی چاہیئے۔ (3)جمہور کے نزدیک :عیادت کا کوئی خاص وقت یا دن مقرر نہیں ، بیماری کا علم ہونے کے بعدکسی بھی مناسب وقت میں عیادت کی جاسکتی ہے۔ جمہور کی جانب سے اِبن ماجہ کی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے جو قابلِ اِستدلال نہیں اور اس کے ذریعہ عیادت کے حکم کو جو احادیث میں بغیر کسی قید کے مطلقاً آیا ہے ،اُس کو مقیّد نہیں کیا جاسکتا ۔اور اگر بالفرض اِس کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین دن مؤخر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مریض کے مرض کا اچھی طرح پتہ چل جائے ،کیونکہ عموماً کسی کے بیمار ہونے کا فوراً پتہ نہیں چلتا بلکہ پتہ چلتے چلتے وقت لگتا ہے اور بسا اوقات اس میں تین دن بھی لگ سکتے ہیں ۔(حاشیۃ السندی بتغیر :1/439)