کتاب الجنائز |
|
ہوکر)کھڑے ہوگئے جیسے اُن کو (بندھی)رسّی سے کھول دیا گیا ہے،(یہ دیکھ کر )ابوطالب نے کہا : اے بھتیجے! تمہارا معبود جس کی تم عبادت کرتے ہووہ تمہارا کہنا بہت مانتا ہے! حضورﷺنے اِرشاد فرمایا:اے چچا!اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کی اِطاعت کرلیں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا کہنا بھی بہت مانیں گے۔عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ، مَرِضَ فَعَادَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا ابْنَ أَخِي، ادْعُ إِلَهَكَ الَّذِي تَعْبُدُ أَنْ يُعَافِيَنِي، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اشْفِ عَمِّي» فَقَامَ أَبُو طَالِبٍ كَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَقَالَ لَهُ: يَا ابْنَ أَخِي إِنَّ إِلَهَكَ الَّذِي تَعْبُدُ لَيُطِيعُكَ قَالَ: «وَأَنْتَ يَا عَمَّاهُ لَئِنْ أَطَعْتَ اللَّهَ لَيُطِيعَنَّكَ»۔(طبرانی اوسط:3973) البتہ ملحد و زندیق کافر جو ظاہری طور پر اِسلام کے دعویدار ہوں اور اِسلام و شریعت کی غلط اور من مانی تشریح کرکے خود بھی گمراہ ہوتے ہوں اور دوسروں کی گمراہی کا باعث بنتے ہوں ،ایسے کافروں کے ساتھ کسی قسم کا حسن سلوک اور عیادت و تعزیت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ، نبی کریمﷺنے اس سے بصراحت منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرنبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : قدریہ یعنی تقدیر کا اِنکار کرنے والے اِس امّت کے مجوسی ہیں ،وہ اگر بیمار ہوجائیں تو اُن کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مرجائیں تو اُن کے جنازے میں حاضر نہ ہو۔الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ: إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ۔(ابوداؤد:4691) ایک اور روایت میں ہے : ہر اُمّت کے مجوسی رہے ہیں ، اِس امّت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کا اِنکار کرنے والے ہیں ، اُن میں جو مرجائے اُن کے جنازے میں حاضر نہ ہونا،اور اُن میں سے جو بیمار ہوجائیں اُن کی عیادت نہ کرو،وہ دجال کے گروہ سے تعلّق رکھتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہےکہ اُن کو