کتاب الجنائز |
|
(6)تمام اہلِ حقوق،مثلاً:بیوی،بچے، والدین، اعزاء و اقارب ،ملازم ،نوکر،پڑوسی،دوست احباب اور وہ تمام افرادجن کے ساتھ زندگی میں کسی بھی نوعیت کا واسطہ رہا ہو اُن سب کے حقوق کی مکمل ادائیگی کرنا یا معاف کروانا۔ (7)جو کام فی الحال نہ کیے جاسکتے ہوں مثلاً قرض وغیرہ کی ادائیگی کیلئے بندو بست نہ ہو تو اولاد وغیرہ کو وصیت کردینا تاکہ وہ بعد میں ادائیگی کرسکیں۔ (8)اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت ،رحمت اور نجات کی اُمید اوراچھا گمان رکھنا۔ (9)اپنے آپ کو مخلوق میں سب سے کمتر تصوّر کرنا اور یہ سوچنا کہ اللہ تعالیٰ عذاب دینے سے مستغنی ہیں۔ (10)آیاتِ رَجاء یعنی وہ آیات پڑھنا یا سننا جن میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں کا تذکرہ ہے۔ (11)امّت کے اولیاء و صلحاء کی باتیں اور اُن کے موت کے قریب کے آثار و حکایات کو پڑھنا اور سننا ۔ (12)خیر و بھلائی کے کاموں کو بڑھادینا ،خصوصاً نمازوں کی خوب محافظت کرنا ۔ (13)نجاست اور ناپاکیوں سے حتی الامکان احتراز کرنا۔ (14)امورِ دینیہ میں ہر قسم کے تساہل اورسستی سے اجتناب کرنا،کیونکہ یہ وقت سستی کا نہیں ۔ (15)اپنے اہل و عیال،رشتہ دار اور دوست احباب کو صبر کی تلقین کرنا اور نوحہ و بین کرنے سے منع کرنا ۔ (16)مرنے کے بعد جو میت کی رسمیں ،بدعتیں اور خرافات کی جارہی ہوتی ہیں ، مثلاً : تیجہ ،دسواں ، چالیسواں اور برسی وغیرہ اِن سب کے بارے میں پسماندگان کو بہر صورت بچنے کی سختی کے ساتھ وصیت کرنا (الأذکار للنووی:1/244) مذکورہ بالا کام وہ تھے جو زندگی سے مایوس شخص کے کرنے کے تھے ،اب اُن کاموں کی تفصیل ملاحظہ کریں جو عین وقت میں اختیار کرنے کے ہیں: