’’وقد جاء علیٰ اجل بعد نبینا المصطفیٰ کمثل اجل بعث المسیح فیہ بعد موسیٰ! مسیح موعود اور حضور علیہ السلام کے درمیان اتنا ہی زمانہ حائل ہے۔ جتنا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام میں تھا۔‘‘ (خطبۂ الہامیہ ص۷۳، خزائن ج۱۶ ص۱۲۳،۱۲۴)
ان اقتباسات سے استدلال کے تمام پہلو سامنے آگئے۔
اوّل…
کہ آیت میں کما کا لفظ حضورﷺ کو حضرت موسیٰ کا مثیل ثابت کرتا ہے۔
دوم…
کہ مماثلت سے مراد مماثلت تامہ ہے۔ یعنی دونوں سلسلوں (موسوی، محمدی) کے خلفا تعداد میں برابر تھے اور مسیح وموسیٰ علیہ السلام کے درمیان اتنا ہی زمانہ حائل تھا۔ جتنا مسیح موعود اور حصورﷺ پرنور میں، نیز موسیٰ سلسلے میں بارہ خلفاء تھے اور تیرھواں مسیح تھا۔
سوم…
کہ مرزاقادیانی خاتم الخلفاء (یعنی آخری خلیفے) تھے۔
چہارم…
کہ جس طرح حضرت مسیح اسرائیلی نہیں تھے۔ اسی طرح مرزاقادیانی بھی قریشی نہیں تھے۔پنجم…
کہ سلسلہ محمدیہ کا پہلا خلیفہ حضرت ابوبکرؓ اور بارہوں خلیفہ سید احمد بریلویؒ تھا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس استدلال کے تمام اجزاء پر جداگانہ نظر ڈالی جائے۔
جزو اوّل
کما حرف تشبیہ ہے۔ تشبیہ کے لئے مکمل مشابہت (مماثلت تامہ) ضروری نہیں۔ ہم ہر روز سینکڑوں تشبیہات خود استعمال کرتے اور کتب ورسائل میں پڑھتے ہیں۔ کہیں بھی مکمل مشابہت مراد نہیں ہوتی۔ مثلاً:
۱… زید شیر جیسا ہے۔
۲… وہ چاند کی طرح ہے۔
۳… وہ پھول کی مانند ہے۔
ان جملوں میں مکمل مشابہت ہو ہی نہیں سکتی۔ زید کے شیر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی چار ٹانگیں اور ایک پونچھ ہے اور وہ جنگلی گدھے کھاتا ہے۔ نہ کسی کے چاند ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہر مہینے کے پہلے چند روز نامکمل ہوتا ہے اور چودھویں کے بعد پھر روبزوال ہو جاتا ہے۔ ایلخانی دور کے ایرانی مصنفین کی تحریرات، تشبیہات واستعارات سے لبریز ہیں۔ وہ کسی شاعر کا ذکر کرتے ہیں تو اسے نہنگ قلزم اندیشہ بنادیتے ہیں۔ قاصد کو ہدہد، سلطان کو عقل کل جمشید