مقام نبوت کے تعارف کے بعد میں نے اپنی مذکورہ صدر کتاب میں لکھا تھا کہ: ’’مقام نبوت تو ایک طرف شمع نبویؐ سے اکتساب ضیاء کرنے والے مرد مؤمن کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی نگاہوں سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ایک اﷲ کے سوا کسی کا خوف اس کے دل تک نہیں پہنچ سکتا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس کی شمشیر جگر دار کے سامنے لرزہ براندام ہوتی ہیں۔ اس کی قوت بازو حکومت خداوندی کے تمکن وبقاء کی ضامن ہوتی ہے۔ وہ قوانین خداوندی کا عملاً نفاذ کرتا ہے۔ یہ وہ مجدد ہوتا ہے جس کی قوت ایمانی اور بصیرت فرقانی سے محمد رسول اﷲ والذین معہ کے عہد سعادت مہد کی یادتازہ ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مسیحا ہوتا ہے جس کے اعجاز نفس سے مردہ قوم میں ازسرنو زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ وہ مہدی ہوتا ہے جو خود اﷲ کے صراط مستقیم پر گامزن ہوکر ساری دنیا کے لئے ہدایت ورشد کا نمونہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ مرکز ہوتا ہے جس کے گرد ایسی جماعت کا دائرہ کھیچ جاتا ہے جس کے متعلق فرمایا کہ: ’’یحبہم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکافرین یجاہدون فی سبیل اﷲ ولا یخافون لومۃ لائم (المائدہ:۵۴)‘‘ {اﷲ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اﷲ سے۔ وہ مومنوں کے سامنے جھکے ہوئے اور مخالفین کے مقابل میں غالب ہوتے ہیں۔ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے والے۔}
اس کے برعکس دیکھئے کہ آپ کو اس عہد کی مجددیت، مہدویت، مسیحیت اور نبوت سے
محکومی ومسکینی ونومیدیٔ جاوید
کے سوا اور کیا ملا؟ یہ آنے والا آیا۔ آکر چلا بھی گیا اور قوم کی حالت یہ کہ
وہی نالۂ سحری رہا وہی آہ نیم شبی رہی
کچھ ملنا تو ایک طرف اس کی خاستر پارینہ میں کہیں کوئی دبی ہوئی چنگاری تھی تو وہ بھی اس کے تنفس مرگ آور کی برکت سے بجھ بجھا گئی۔ یہ فرق ہے ایک زندہ قوم کے ابناء اور مردوں کی بستی کی لاشوں میں۔
ہو بندۂ آزاد اگر صاحب الہام
ہے اس کی نگہ فکر وعمل کے لئے مہمیز
اس کے نفس گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہو جاتی ہے خاک چمنستان شرر آمیز