عیسائیت کے بانی کی (معاذ اﷲ) دھجیاں بکھیری ہیں۔ مرزاقادیانی کا تصور بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان سے آگے بڑھئے تو رینان کی (Life of Jesus) اور برٹڑینڈرسل کی (Why I am not a Christian) دیکھئے تو ان میں ایک ایک صفحہ پر صلیب کے ٹکڑے بکھرے ہوئے نظر آئیںگے۔ آپ وفات مسیح کہتے ہیں۔ عیسائی دنیا کے محققین (عیسائی لٹریچر کے مطالعہ کے بعد) یہاں تک کہنے لگ گئے ہیں کہ مسیح علیہ السلام نام کی کوئی تاریخ میں شخصیت ہی نہیں محض افسانہ ہے۔ حال ہی میں اٹلی کے ایک ممتاز اہل قلم (Marcello- Craveri) کی ارتعاش انگیز کتاب (Life of Jesus) اور لنڈن کے (Dr, Hughj. Schonfie,6) کی شہرہ آفاق تصنیف (The pass Over Plot) شائع ہوئی ہیں۔ جو دلائل اور حقائق ان میں پیش کئے گئے ہیں۔ مرزاقادیانی کے دلائل ان کے سامنے نصاب بچگان نظر آتے ہیں۔ عیسائی دنیا تو خود یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کے سامنے آپ کسر صلیب کا کارنامہ کیا پیش کریںگے؟ ویسے بھی عیسائی مملکتوں نے نظام سیکولر اختیار کر لیا ہے۔ جس میں مذہب کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔ اس لئے انہیں اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی شخص وفات مسیح کا قائل ہے یا حیات مسیح کا۔ (خود مرزاقادیانی نے بھی اسلام کو ایک مذہب کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اسلام بحیثیت ایک دین، نظام حیات، ان کے حیطہ تصور میں بھی نہیں آتا تھا) حتیٰ کہ اگر آپ کچھ عیسائیوں کو مسلمان بھی کر لیں تو ان کے ہاں اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نہ ہی اس سے اسلام کا پلڑا جھک جاتا ہے۔ اس زمانے میں جبکہ مغربی فلسفۂ سیاست کی رو سے قوموں کی موت اور حیات، وطنیت اور قومیت کے نظریہ کے ساتھ وابستہ ہوچکی ہے۔ چند افراد کی تبدیلی مذہب کیا مؤثر حیثیت رکھتی ہے۔ اگر (مثلاً) پاکستان کے خلاف انگلستان کی جنگ ہو تو اس میں مسلمان انگریز بھی اسی طرح پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائیںگے۔ جس طرح وہاں کے عیسائی انگریز یہی وہ حقیقت ہے جس کے پیش نظر علامہ اقبالؒ نے اپنی اس نظم میں جس کا عنوان ہے۔ ’’اشاعت اسلام فرنگستان میں‘‘ کہا تھا کہ ؎
ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی
فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام
بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں
قبول دین مسیحا سے برہمن کا مقام