(ابن حزام) کو رسول اﷲﷺ کی زندگی میں سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ ’’فاستمعت لقرأتہ‘‘ میں نے ان کا پڑھنا (قرأت) سنا تو وہ بہت سے ایسے الفاظ پڑھ رہے تھے جو مجھے رسول اﷲﷺ نے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘
ان تصریحات سے واضح ہے کہ قرأت کے معنی پڑھنا ہیں۔ تفسیر یا مفہوم نہیں۔ ویسے بھی قرآنی آیت ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی (الحج:۵۲)‘‘ کے متعلق کہنا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث‘‘ قرآن کریم سے (معاذ اﷲ)مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ قرآن کریم نے رسول اور نبی کہا ہے۔ ان میں سے کون سا لفظ ہے جس کا مفہوم محدث ہے؟ اور اگر یہ تفسیر ہے تو پھر اضافہ کسے کہتے ہیں؟
اس کے بعد میں نے حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب کردہ اختلاف قرأت کی ایک مثال پیش کی جس میں میں نے لکھا تھا: ’’مرد عورت کے جنسی تعلقات کے سلسلہ میں قرآن کریم (سورۂ النسائ) میں ان رشتوں کی تفصیل دینے کے بعد جن سے نکاح حرام ہے کہا گیا ہے۔‘‘
’’واحل لکم ما ورآء ذلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین فما استمتعتم بہ منہن فاتوہن اجورہن فریضۃ (النسائ:۲۴)‘‘
اور جو اس کے سوا ہیں وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ اس طرح کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ساتھ چاہو نکاح میں لاکر نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے۔ سو تم ان میں سے جس کے ساتھ نفع اٹھانا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر دے دو۔ (ترجمہ مولانا محمد علی لاہوری، بیان القران ص۳۲۹،۳۳۰)
سنیوں کے ہاں اس معاہدہ کا نام ہے نکاح جو مہر ادا کر کے دائمی طور پر کیا جاتا ہے اور جو موت یا طلاق سے فسخ ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس شیعہ حضرات متعہ کے قائل ہیں۔ جس میں ایک مرد اور ایک عورت ایک مدت معینہ کے لئے مباشرت کا معاملہ طے کر لیتے ہیں اور اس کے لئے اس عورت کو جنسی تعلق کا معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔ سنیوں کے ہاں متعہ حرام ہے۔
اس تمہید کے بعد آگے بڑھئے۔ حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ سنیوں کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ ان کی قرأت (مصحف) میں مندرجہ بالا آیت یوں آتی ہے۔
’’فماستمتعتم بہ منہن الیٰ اجل مسمّٰی‘‘ تم ان سے ایک مدت معینہ کے لئے فائدہ اٹھاؤ۔ یعنی اس قرآن کی رو سے آیت قرآنی میں ’’الیٰ اجل مسمّٰی‘‘ کا اضافہ کیا گیا