لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قدر پیش گوئیاں کرنا، خدا سے علم پائے بغیر کس طرح ممکن تھا۔ آئیے دیکھیں کہ پیش گوئی کے متعلق قرآن کریم کیا کہتا ہے۔
پیش گوئی کے معنی ہیں کسی واقعہ کے ظہور سے پہلے اس کے متعلق بتا دینا۔ اسے علم غیب کہا جاتا ہے اور علم غیب کے متعلق قرآن کریم میں ہے کہ: ’’انما الغیب ﷲ (یونس:۲۰)‘‘ {غیب کا علم صرف خدا کو حاصل ہے۔ کسی اور کو نہیں۔}
اس کی تشریح میں دوسری جگہ کہا ہے: ’’قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا ﷲ (النحل:۶۵)‘‘ {(اے رسول!) اس کا اعلان کردو کہ خدا کے سوا کائنات میں غیب کا علم کسی کو حاصل نہیں۔}
حتیٰ کہ رسولوں کو بھی ازخود اس کا علم نہیں ہوتا تھا۔ حضورﷺ کی زبان مبارک سے قرآن میں کہا گیا ہے کہ: ’’لا اعلم الغیب (انعام:۵۰)‘‘ {غیب کا علم میں بھی نہیں جانتا۔} البتہ جس بات کے متعلق خدا چاہتا وحی کے ذریعے اپنے رسولوں کو مطلع کر دیتا ہے۔ سورۂ آل عمران میں ہے: ’’وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء (آل عمران:۱۷۹)‘‘ {خدا تمہیں غیب کی باتیں نہیں بتاتا۔ البتہ وہ اپنے رسولوں میں سے اپنی مشیت کے مطابق اس کے لئے چن لیتا ہے۔}
دوسری جگہ ہے: ’’عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احد…۰ الا من ارتضی من رسول (الجن:۲۶)‘‘ {عالم الغیب صرف خدا ہے وہ اپنے علم غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔ بجز اس کے کہ اپنے رسول کو اس امر کے لئے منتخب کرے۔}
رسول کو غیب کی باتیں بذریعہ وحی بتائی جاتی تھیں۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ کو جن امور غیب پر مطلع کیا گیا ان کے ساتھ واضح کردیا گیا کہ: ’’ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک (یوسف:۱۰۲)‘‘ {یہ غیب کی خبریں ہیں۔ جنہیں ہم نے تیری طرف وحی کیا ہے۔}
چونکہ وحی کا سلسلہ حضور نبی اکرمﷺ کی ذات پر ختم ہوگیا۔ اس لئے اب علم غیب کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے قرآن کریم میں حتمی طور پر کہہ دیا گیا کہ: ’’وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت (لقمان:۳۴)‘‘ {کوئی شخص یہ نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا کرے گا۔ نہ ہی یہ کہ اس کی موت کہاں واقعہ ہوگی۔}
قرآن کریم کی ان تصریحات کی روشنی میں واضح ہے کہ اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں