اور سورۂ البقر میں ہے: ’’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اﷲ النبین مبشرین ومنذرین وانزل معہم الکتب بالحق (البقرہ:۲۱۳)‘‘ {نوع انسان امت واحدہ تھے۔ (انہوں نے اختلاف کیا تو) خدا نے انبیاء کو بھیجا جو مبشر اور منذر تھے اور ان سب کے ساتھ کتاب نازل کی حق کے ساتھ۔}
آپ دیکھئے سورۂ حدید میں کہا کہ تمام رسولوں کو کتاب دی اور سورۂ بقرہ میں فرمایا کہ تمام انبیاء کو کتاب دی۔ اس لئے یہ عقیدہ کہ نبی بلاکتاب آئے تھے۔ قرآن کریم کی کھلی ہوئی مخالفت ہے۔ چونکہ کتاب، نبی اور رسول وغیرہ اصطلاحات قرآنیہ کے متعلق دوسرے باب میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے۔ اس لئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ ان حضرات کے دو ایک دلائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
۱… یہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام بیک وقت مبعوث ہوئے اور دونوں نبی تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو کتاب دی گئی۔ لیکن حضرت ہارون علیہ السلام کو نہیں دی گئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی بلاکتاب بھی آسکتا ہے اور یہی مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا۔
ان حضرات کی یہ دلیل قرآن کریم سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’ولقد اٰتینا موسیٰ وہرون الفرقان وضیاء وذکر اللمتقین (الانبیائ:۴۸)‘‘ {اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو فرقان اور ضیاء اور متقین کے لئے ذکر عطاء کیا۔}
قرآن کریم انبیاء کی کتابوں کو انہی القاب سے پکارتا ہے۔ دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کر دی جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا نام لے کر فرمایا کہ: ’’واٰتینہما الکتب المستبین (الصفت:۱۱۷)‘‘ {اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب دی۔} اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام دونوں صاحب کتاب تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ (جیسا دوسرے باب میں بتایا جاچکا ہے)
کتاب کہتے ہی خدا کی وحی کو ہیں۔ اس لئے یہ کہنا ابلہ فریبی ہے کہ نبی بلاکتاب (یعنی بلاوحی) بھی آتا ہے۔ ان کی طرف سے پیش کردہ تیسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ سورۂ مائدہ میں ہے: ’’انا انزلنا التورۃ فیہا ہدی ونور یحکم بہا النبیون الذین اسلموا للذین