اس کے جواب میں قادیانی حضرات کہتے ہیں کہ: ’’(آپ لوگ) حضرت صاحب کے جس منسوخ درمنسوخ معاہدہ کا سہارا لینا چاہتے ہیں وہ فروری ۱۸۹۲ء کا ہے اور اس میں بھی مسلمان بھائیوں کی دلجوئی کی خاطر یہی الفاظ لکھے گئے تھے کہ وہ کاٹا ہوا خیال کرلیں۔ مگر اس کے بعد حضرت اقدس کو باربار بارش کی طرح وحی میں نبی اور رسول کہاگیا تو پھر آپ نے مسلمان بھائیوں کی دلجوئی کی پرواہ اتنی بھی نہیں کی کہ اپنے سابقہ اعلان کا عملی طور پر اعادہ فرمادیں۔ بلکہ کثرت سے نبی اور رسول کے الفاظ کا استعمال فرمایا۔‘‘ (قادیانی اخبار فاروق ۲۸؍فروری ۱۹۳۵ئ)
جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مرزاقادیانی اپنے دعاوی کی سیڑھیوں پر درجہ بدرجہ چڑھے تھے۔ اس لئے ان کی کتابوں میں مختلف دعاوی پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں میاں محمود احمد قادیانی رقم طراز ہیں۔ ’’غرضیکہ مذکورہ بالا حوالہ سے صاف ثابت ہے کہ تریاق القلوب کی اشاعت تک (جو کہ اگست ۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور اگست ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی) آپ کا عقیدہ یہی تھا کہ آپ کو حضرت مسیح پر جزوی فضیلت ہے اور آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت لیکن بعد میں آپ کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ ہر ایک شان میں مسیح سے افضل ہیں اور کسی جزوی نبوت کے پانے والے نہیں بلکہ نبی ہیں۔ ہاں ایسے نبی جن کو آنحضرتﷺ کے فیض سے نبوت ملی۔ پس ۱۹۰۲ء سے پہلے کی کسی تحریر سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہوسکتا۔‘‘ (القول الفصل ۲۴، مصنفہ میاں محمود احمد قادیانی)
ان دونوں جماعتوں میں بحث کا اندازہ یہی ہوتا ہے۔ لاہوری جماعت ۱۹۰۲ء سے پہلے کے دعاوی کو بطور حجت پیش کرتی ہے اور قادیانی جماعت ۱۹۰۲ء کے بعد کے دعاوی کو اور بعد کے دعاوی کے ضمن میں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے اپنی وفات کے تین دن پہلے (یعنی ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو) ایڈیٹر اخبار عام لاہور کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔ (جو اس اخبار کے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا کہ)
’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں۔ اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کرسکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷)
حقیقت یہ ہے کہ لاہوری جماعت کی حالت بڑی قابل رحم ہے۔ ایک طرف وہ قادیانی جماعت سے الجھتی ہے تو وہ مرزاقادیانی کی تحریروں کے حوالوں سے انہیں بری طرح گھیر