ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپے ماہوار بھی آئیںگے۔ مگر خدائے تعالیٰ غریبوں کو خاک سے اٹھاتا ہے اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے۔ اس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ اگر اس میرے بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھو، تامعلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اس تمام مدت میں کھولا گیا ہے۔ حالانکہ یہ آمدنی صرف ڈاک کے ذریعے تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ ہزارہا روپے کی آمدنی اس طرح بھی ہوئی ہے کہ لوگ خود قادیان میں آکر دیتے تھے اور نیز ایسی آمدنی جو لفافوں میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، ۲۱۲، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)
یہ تو وہ آمدنی تھی جو عطیات (چندہ) پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ دو اسکیمیں ایسی تھیں جن سے ایک جاگیر وجود میں آگئی۔ قادیان ایک قصبہ نما گاؤں تھا۔ جس کی زمینیں عام دیہات کی زمینوں جیسی تھیں۔ مرزاقادیانی نے دو ایسی اسکیموں کی ترویج کی جن سے ان کی زمینیں کان جواہر بن گئیں۔ ایک اسکیم بہشتی مقبرہ کی تھی جس کے متعلق فرمایا کہ: ’’خدا نے مجھے وحی کی اور ایک زمین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ زمین ہے۔ جس کے نیچے جنت ہے۔ پس جو شخص اس میں دفن کیاگیا وہ جنت میں داخل ہوا اور وہ امن پانے والوں میں سے ہے۔‘‘
(اردو ترجمہ الاستفتاء عربی ص۵۱، خزائن ج۲۲ ص۶۷۵)
اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے جو شرائط مقرر کی گئیں۔ ان میں ایک تو یہ تھی کہ وہ شخص اپنی حیثیت کے مطابق چندہ ادا کرے اور دوسری یہ کہ وہ یہ وصیت کرے کہ اس کے ترکہ کا کم ازکم دسواں حصہ سلسلہ احمدیہ کو ملے گا۔ ان شرائط کے بعد مرزاقادیانی نے تحریر فرمایا کہ: ’’میری نسبت اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے۔ باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ہو۔ ان کو ان شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ الوصیت ص۲۹، خزائن ج۲۰ ص۳۲۷)
دوسری اسکیم یہ تھی کہ لوگ ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہوں۔ فرمایا کہ: ’’جو شخص سب کو چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا اس کی حالت کی نسبت مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۶۰، خزائن ج۱۵ ص۲۶۲، ۲۶۳)