آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کے مذہبی افکار کی تاریخ میں احمدیوں نے جو کارنمایاں سرانجام دیا وہ یہی ہے کہ ہندوستان کی موجودہ غلامی کے لئے وحی کی سند مہیا کر دی جائے۔‘‘
مرزاقادیانی کے تمام دعاوی کا منتہی یہ تھا کہ جہاد کو حرام قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوںکو قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیاگیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۱؎۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
اس کی تشریح میں کہا: ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمادیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیںگے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیاگیا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہےاب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(اعلان مرزاقادیانی مندرجہ تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۹۸)
۱؎ اس نکتہ کو ذہن میں رکھئے کہ اسی جہاد کو منسوخ قرار دیا جارہا ہے۔ جو بحکم خداوندی رسول اﷲﷺ کے زمانے میں رائج تھا اور جس کا حکم قرآن مجید کے اندرمسلسل چلا آرہا ہے۔ مرزاقادیانی اس قرآنی حکم کو منسوخ قرار دے رہے ہیں۔