بیگم کا کسی شخص سے نکاح ہوگا تو دوسری طرف سے فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لاوارث کر دوںگا۔‘‘ (کلمتہ فضل رحمانی ص۱۲۵تا۱۲۷)
یعنی اپنے بیٹے کی ساس کو لکھا جارہا ہے کہ اگر تمہارا بھائی اپنی لڑکی کا رشتہ مجھ سے نہیں کرے گا تو یہاں تمہاری بیٹی کو طلاق مل جائے گی۔
مرزاقادیانی کے دوسرے بیٹے سلطان احمد (جو اس زمانے میں نائب تحصیلدار تھے) بھی اس نکاح کے مخالف تھے۔ مرزاقادیانی نے اپنے اشتہار مورخہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ء میں لکھا کہ اگر سلطان احمد نے بھی انہیں اس بات سے نہ روکا تو۔ اس نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہوگی۔ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۲۱)
لیکن اس کے باوجود انہوں نے محمدی بیگم کی شادی سلطان محمد نامی ایک صاحب کے ساتھ کردی۔ مرزاسلطان احمد نے تو باپ کی بات نہ مانی۔ لیکن ان کے دوسرے بیٹے فضل احمد نے اپنی بیوی کا طلاق نامہ لکھ کر باپ کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد مرزاقادیانی سے کہا کہ اگرچہ وہ لڑکی سلطان محمد سے بیاہی گئی۔ لیکن وہ میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ یہ خدا کی باتیں ہیں۔ ٹلتی نہیں ہوکر رہیں گی۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان نمبر۲۹ ج۵ ص۱۵، مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ)
بلکہ انہوں نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ: ’’ہم نے خود اس لڑکی سے عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔‘‘ (الہام مرزا مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۱ئ)
اس لڑکی کے خاوند کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص۳۱)
لیکن ہوا یہ کہ محمدی بیگم بدستور سلطان محمد کے نکاح میں رہیں۔ زندہ اور سلامت اور مرزاقادیانی کا مئی ۱۹۰۸ء میں انتقال ہوگیا۔
پہلے لکھا جاچکا ہے کہ مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ اگر اس لڑکی کا نکاح ان سے نہ کیاگیا تو ان کا بیٹا فضل احمد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا اور خود مرزاقادیانی اپنی بیوی یعنی فضل احمد اور سلطان احمد کی والدہ کو بھی طلاق دے دیںگے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اس بیوی کو بھی طلاق دے دی۔ سیرت المہدی کے مصنف صاحبزادہ بشیر احمد نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے ۲؍مئی ۱۸۹۱ء کو شائع کیا تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۳۴)