الہامات کے صرف دوتین نمونے پیش کرتے ہیں۔ انہی سے قارئین ان کے باقی الہامات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ (الہامات کے سلسلہ میں مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ ان پر وحی اور الہامات کا نزول بارش کی طرح ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قریب اٹھائیس سال (۱۸۸۰، لغایت ۱۹۰۸ئ) تک جاری رہا۔ اس سے آپ ان کی مقدار کا اندازہ کرسکتے ہیں) بہرحال آپ دو ایک الہامات ومکاشفات ملاحظہ فرمائیے:
۱… ’’میں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے اور گویا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے وہ اس پر حملہ کرتی ہے۔ باربار ہٹانے سے باز نہیں آتی تو بالآخر میں نے اس کا ناک کاٹ دیا ہے اور خون بہہ رہا ہے۔ پھر بھی باز نہ آئی تو میں نے اسے گردن سے پکڑ کر اس کا منہ زمین سے رگڑنا شروع کیا۔ باربار رگڑتا تھا۔ لیکن پھر بھی سراٹھاتی جاتی تھی تو آخر میں کہا کہ آؤ اسے پھانسی دے دیں۔‘‘ (تذکرہ ص۴۸۳)
۲… ایک اور کشف ملاحظہ فرمائیں: ’’حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا۔‘‘ (ٹریکٹ نمبر۳۴، اسلامی قربانی ص۱۲)
۳… مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں: ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی ماہر علم النفس مرزاقادیانی کا نفسیاتی تجزیہ کر کے بتائے کہ وہ کس قسم کے نفسیاتی مریض تھے اور اس کی بنیادی وجہ کیا تھی۔ اس قسم کے تھے وہ الہامات جن کے پیش نظر انہوں نے اس امر کی ضرورت محسوس کی تھی۔ ویسے خود احمدی حضرات کی بھی تحقیق ہے کہ مرزاقادیانی مراق (مالیخولیا) کے مریض تھے۔
’’مراق کا مرض مرزاقادیانی کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت، تفکرات، غم اور سوء ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر کے ذریعے ہوتا تھا۔‘‘
(رسالہ ریویو آف ریلیجنز نمبر۸ ج۲۵ ص۲۹۰، قادیان بابت اگست ۱۹۲۶ئ)
صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی اپنی تالیف (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۵) میں لکھتے ہیں: