) ہوشیار کرتا ہے۔ لیکن انسانوں میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں۔ (تفسیر صغیر ص۵۶۴)
اور وہ حاشیہ میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’یہاں کافۃ للناس کے الفاظ ہیں اور کف الشیٔ کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو اس طرح جمع کیا جائے کہ اس کا کوئی حصہ باہر نہ رہے۔ (اقرب) یہ آیت اس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ یہودی یا عیسائی یا اور کسی مذہب کا اور خواہ قیامت تک کسی صدی میں پیدا ہونے والا ہو وہ رسول کریمﷺ کی رسالت کے ماتحت ہے۔ ایسا کوئی دعویٰ نہ تورات میں ہے نہ انجیل میں نہ ویدوں میں۔ بلااستثناء سب مذاہب کی طرف اور سب زمانوں کی طرف اور سب قوموں کی طرف مبعوث ہونے کا دعویٰ صرف محمد رسول اﷲﷺ کو ہے جو اس آیت سے ثابت ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۵۶۴)
اس سے سورۂ جمعہ کی آیت ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘ کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد آپ دیکھئے کہ مرزابشیر الدین محمود قادیانی اس آیت کا مفہوم کیا پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ان کا پیش کردہ مفہوم سامنے لایا جائے۔ تجدید یا دداشت کے لئے اسے دہرا لیجئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ کوئی دوسرے رسول نہیں۔ خود محمد ہی ہیں جو باردگر دنیا میں آئے ہیں۔ (تفصیل پہلے گذر چکی ہے) اس دعویٰ کی روشنی میں مرزابشیر الدین محمود قادیانی کا (اس آیت کا) ترجمہ اور تشریح ملاحظہ فرمائیے۔ وہ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ ’’اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۷۴۵)
یعنی خدا نے محمد کو اس وقت صرف ان عربوں کی طرف بھیجا ہے اور اس کے بعد وہ انہیں ایک اور قوم کی طرف بھی بھیجے گا۔ لیکن ان کا دوبارہ دنیا میں آنا بروزی شکل میں ہوگا۔
اس ترجمہ کے بعد ان کی تشریح ملاحظہ فرمائیے۔ وہ حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ سے صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ! یہ آخرین کون ہیں۔ تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ فرمایا۔ ’’لوکان الایمان معلقاً بالثریا لنا لہ رجل اورجال من فارس (بخاری)‘‘ یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اڑ گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیںگے۔ اس میں مہدی معہود کی خبر ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۷۴۵)
اور یہ ’’مہدی معہود‘‘ مرزاغلام احمد قادیانی ہیں۔
آپ نے غور فرمایا کہ مرزاقادیانی کے دعاوی کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں