طور پر کیاگیا ہے۔ آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ جس رسول کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی وہ زمانہ نزول قرآن میں آچکا تھا۔ (ماضی کے صیغے کے معنی ہی یہ ہیں) اور ظاہر ہے کہ وہ خود نبی اکرمﷺ تھے۔ لہٰذا اس آیت سے کسی ایسے آنے والے رسول کی دلیل لانا جو حضور نبی اکرمﷺ کے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا قرآن کریم کی صریحاً تحریف ہے۔ آگیا کو آئے گا۔ میں تبدیل کرنا تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟
آپ یقینا حیران ہوںگے کہ جب مرزابشیر الدین محمود قادیانی نے اس آیت کے ترجمہ میں آگیا لکھا ہے تو پھر انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا مورد مرزاقادیانی کو کیسے قرار دے دیا۔ اس کی توجیہہ بڑی دلچسپ ہے۔ انہوں نے (اپنے ترجمہ پر نشان دے کر نیچے) حاشیہ میں لکھا ہے۔
’’اس آیت میں رسول اﷲﷺ کی پیش گوئی ہے جو انجیل برنباس میں لکھی ہوئی ہے۔ عیسائی اس کو جھوٹی انجیل قرار دئیے ہیں۔ مگر یہ پوپ کی لائبریری میں پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دلیل ہے کہ مروجہ اناجیل میں فارقلیط کی خبر دی گئی ہے۔ جس کے معنی احمد ہی کے بنتے ہیں۔ پس اس آیت میں رسول کریمﷺ کی بلاواسطہ اور آپ کے ایک بروز کی جس کا ذکر اگلی سورۃ میں ہے۔ بالواسطہ خبر دی گئی ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۷۴۳)
آپ نے دیکھا کہ قرآن کریم کی نص صریح کے بعد (جس کا ترجمہ خود انہوں نے جب وہ آگیا کیا ہے) اور اس بشارت کا مورد نبی اکرمﷺ کو قرار دے کر اسے کس طرح ایک بروز کی آڑ میں مرزاقادیانی پر چسپاں کیاگیا ہے؟ ہم شروع میں کہہ چکے ہیں کہ ظل اور بروز اور حلول اور رجعت (کسی کے دوبارہ آنے) کے تمام تصورات مجوسویوں کے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کے یکسر خلاف ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کا دعویٰ انہی مجوسی تصورات پر مبنی ہے۔
مرزابشیر الدین محمود قادیانی نے اوپر کہا ہے کہ آپ کے ایک بروز کی جس کا ذکر اگلی سورت میں ہے۔ بالواسطہ خبر دی گئی ہے۔ اس دعویٰ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تو اگلی سورت میں ہے۔ لیکن بروز کا ذکر اسی سورت کی اگلی آیت میں کردیا ہے۔ اس لئے پہلے اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ سورۂ صف کی اگلی آیت اور اس کا ترجمہ (مرزابشیرالدین قادیانی کے الفاظ میں) حسب ذیل ہے: ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ الکذب وھو یدعی الیٰ الاسلام واﷲ لا یہدی القوم الظلمین! اور اس سے زیادہ ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹ باندھے۔ حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے