’’میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان جنگ جو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی۔‘‘
(تحفہ قیصریہ ص۱۸، خزائن ج۱۲ ص۲۷۰) مرزاقادیانی نے (کتاب البریہ میں) لکھا ہے کہ ان کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ سیالکوٹ کچہری میں (بطور اہلمد) ملازم رہے اور وہاں سے مستعفی ہونے کے بعد گھر کے دھندوں (زمینداری کے کاموں) میں مصروف ہوگئے۔
مرزاقادیانی کی علمی زندگی (جس سے وہ ملک میں متعارف ہوئے) ۱۸۸۰ء میں شروع ہوئی۔ جب انہوں نے اپنی سب سے پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کی جلد اوّل شائع کی۔ اس زمانے میں مباحثوں اور مناظروں کا بڑا زور تھا۔ ایک طرف ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند، اسلام پر مسلسل حملے کر رہے تھے۔ دوسری طرف سے پادری فنڈل کی سربراہی میں عیسائی پادری، مسلمانوں کے خلاف مذہبی میدان میں نبرد آزما تھے۔ براہین احمدیہ ان مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی اور اس وجہ سے اس نے ملک میں کافی شہرت حاصل کر لی۔ یہ جو احمدی حضرات اکثر کہتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اکابرین اور مشاہیر نے مرزاقادیانی کی اسلامی خدمات کو سراہا ہے تو یہ اسی زمانے کی بات ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کے لئے مرزاقادیانی نے مسلمانوں سے مالی مدد کی اپیل کی اور کافی روپیہ جمع ہوگیا۔ انہوں نے پہلے یہ کہا کہ یہ کتاب بڑی جامع ہوگی اور پچاس حصوں پر مشتمل۔ لیکن بعد میں اس میں یوں ترمیم کر دی کہ: ’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیاگیا اور چونکہ پچاس اور پانچ میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘ (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)
اس کتاب کے پہلے چار حصے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک مسلسل شائع ہوگئے۔ لیکن پانچویں حصہ کی اشاعت معرض التواء میں ڈال دی گئی۔ یہ حصہ (مرزاقادیانی کی وفات کے بعد) ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔ یہ التواء دانستہ کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے پہلے چار حصوں میں مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو صوفیائے کرام کی طرح محض ولایت اور کشف والہام تک محدود رکھا تھا اور چونکہ اس قسم کا دعویٰ، مسلمانوں کے نزدیک قابل اعتراض نہیں تھا۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ مرزاقادیانی کی کوئی مخالفت نہ ہوئی۔ بلکہ ان کی مذہبی خدمات کو سراہا بھی گیا۔ اس دوران میں ان کے خیالات