پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)
لہٰذا احادیث کی صحت وسقم کے متعلق مرزاقادیانی کا معیار یہ ہے کہ جو حدیث ان کی وحی کے مطابق ہے وہ صحیح ہے جو اس کے خلاف ہے وہ ردی کی طرح پھینک دینے کے قابل۔ دوسری طرف مودودی صاحب۱؎ کا معیار بھی ایسا ہی ہے۔ مرزاقادیانی اپنی وحی کو معیار قرار دیتے ہیں۔ مودودی صاحب مزاج شناس رسول کی نگۂ بصیرت کو معیار ٹھہراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’حدیث کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے حدیث کے بیشتر ذخیرہ کا گہرا مطالعہ کر کے حدیث کو پرکھنے کی نظر بہم پہنچائی ہو۔ کثرت مطالعہ اور ممارست سے انسان میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے جس سے وہ رسول اﷲﷺ کا مزاج شناس ہو جاتا ہے۔ اس کی کیفیت بالکلیۃ ایسی ہوتی ہے جیسے ایک پرانے جوہری کی بصیرت کو وہ جواہر کی نازک سے نازک خصوصیات تک کو پرکھ لیتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد وہ اسناد کا زیادہ محتاج نہیں رہتا۔ وہ اسناد سے مدد ضرور لیتا ہے۔ مگر اس کے فیصلے کا مدار اس پر نہیں ہوتا۔ وہ بسااوقات ایک غریب، ضعیف، منقطع السند، مطعون فیہ، حدیث کو بھی لے لیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی نظر پتھر کے اندر ہیرے کی جوت کو دیکھ لیتی ہے اور بسااوقات وہ ایک غیر معلل، غیر شاذ، متصل السند، مقبول حدیث سے بھی اعراض کرجاتا ہے۔ اس لئے کہ اس جام زریں میں جو ببادہ معنی بھری ہوتی ہے وہ اسے طبیعت اسلام اور مزاج نبوی کے مناسب نظر نہیں آتی۔‘‘ (تفہیمات حصہ اوّل ص۳۰۲،۳۲۳، ۳۲۴)
حتیٰ کہ وہ یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ: ’’جن مسائل میں اس کو (مزاج شناس رسول کو) قرآن وسنت سے کوئی چیز نہیں ملتی۔ ان میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر نبیﷺ کے سامنے فلاں مسئلہ پیش آتا تو آپ اس کا فیصلہ یوں فرماتے۔‘‘ (تفہیمات حصہ اوّل ص۳۲۴)
آپ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں (مرزاقادیانی اور مودودی صاحب) کا معیار انفرادی اور موضوعی ہے۔ جس کے پرکھنے کا کوئی خارجی معیار نہیں ہوسکتا۔ چونکہ مودودی صاحب کا معیار وہی ہے جسے مرزاقادیانی نے پیش کیا تھا۔ اس فرق کے ساتھ کہ مودودی صاحب اسے مزاج شناس رسول کی نگۂ بصیرت قرار دیتے ہیں اور مرزاقادیانی اسے خدا سے پایا ہوا علم کہتے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کی طرح ان کی بھی سخت مخالفت ہوتی ہے۔ اس باب میں جماعت اہل حدیث
۱؎ ہم نے مودودی صاحب کا حوالہ بالخصوص اس لئے دیا ہے کہ ان مباحث پر ہمارے زمانے میں سب سے زیادہ (کثرت کے ساتھ) وہی لکھتے ہیں۔