باسمہ تعالیٰ
پیش لفظ … (طبع اوّل)
اس کتاب کا مسودہ اپریل ۱۹۷۴ء میں مکمل ہوگیا تھا اور ارادہ تھا کہ اسے نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے طبع کرایا جائے۔ لیکن ۲۹؍مئی۱۹۷۴ء میں ربوہ اسٹیشن کا جو ہنگامہ برپرا ہوا تو احباب کی طرف سے تقاضے موصول ہونے لگے کہ اسے جلد ازجلد شائع کیا جائے۔ چنانچہ نہایت عجلت سے اس کی کتابت کراکر جون کے آخر میں کاپیاں پریس میں بھیج دی گئیں کہ اتنے میں احمدیوں کے خلاف لٹریچر شائع کرنے پر حکومت کی طرف سے پابندیاں عائد کر دی گئیں اور اس کی طباعت روک دینی پڑی۔ ۷؍ستمبر۱۹۷۴ء کو حکومت نے ’’احمدیوں‘‘ کی دونوں جماعتوں (قادیانیوں اور لاہوریوں) کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ لیکن مذکورہ صدر پابندیاں بدستور عائد رہیں۔ اب وہ پابندیاں اٹھی ہیں تو اسے شائع کیاگیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران آپ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ یہ ۷؍ستمبر کے فیصلہ سے پہلے کی تحریر شدہ ہے۔ آپ اس کے مطالعہ کے بعد یقینا ہم سے متفق ہوںگے کہ ۷؍ستمبر کے فیصلہ کے بعد بھی اس کی اہمیت بدستور باقی ہے۔
اس کتاب میں آپ کو بعض امور ہمارے ہاں کے مروجہ نظریات سے مختلف ملیںگے۔ مثلاً نزول عیسیٰ علیہ السلام، آمد مہدی اور مجدد، امکان کشف والہام وغیرہ۔ اس ضمن میں اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھئے کہ دین سے متعلق جملہ معتقدات ونظریات کے سلسلہ میں پرویز صاحب کا مسلک یہ ہے کہ انہیں قرآن مجید کی روشنی میں پرکھا جائے۔ جو اس کے مطابق ہو۔ اسے صحیح قرار دیا جائے۔ جو خلاف ہو اسے مسترد کر دیا جائے۔ اپنے اسی مسلک کی روشنی میں انہوں نے ان نظریات کو بھی پرکھا ہے۔ اگر آپ ان کے اس مسلک سے متفق نہیں تو آپ کو اپنے معیار کے مطابق رد وقبول کا پورا پوار حق حاصل ہے۔ وہ اس بات میں کسی سے بحث میں الجھنا پسند نہیں کرتے۔ (یوں بھی ان کی قرآنی بصیرت کی رو سے) ان معتقدات اور نظریات کا دین کی اساسات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے یہ کفر اور اسلام کا معیار نہیں قرار پاسکتے۔ البتہ مسئلہ ختم نبوت سے ان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
ہمارے خیال کے مطابق یہ اپنے انداز کی منفرد کتاب ہے۔ جسے (مسلمان تو ایک طرف) اگر احمدی حضرات بھی خالی الذہن ہوکر پڑھیں گے تو بہت مفید پائیںگے۔ اس مسئلہ پر