خدا کی نسبت ہونا چاہئے اور ہے کی تفریق بھی ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ہر ہستی کے ثبوت کے لئے اس کے مناسب حال دلائل اور ذرائع ہوتے ہیں۔ ہم مادی اشیاء کے وجود اور ان کی صفات کو چند ذرائع سے ثابت کرتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہی ذرائع غیر مادی اشیاء اور اقدار کے ثبوت میں بھی استعمال کئے جائیں۔ خدا کی ہستی تو خیر وراالورایٰ ہے۔ یہ سوچئے کہ آیا برقی قوت اور ایتھر کے ثبوت کے لئے وہ ذرائع کارآمد ہوسکتے ہیں جو ٹھوس اشیاء کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یقینا نہیں۔ خدا کی ہستی کے ثبوت سے مراد اس کی صفات کا ادراک ہے اور یہ صفات کائنات کی حسین وجمیل تخلیق اور اس کے ضبط ونظم وروبہ ارتقاء قوت سے ظاہر ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے آپ اور کیا چاہتے ہیں؟
ابھی اجرائے نبوت کے کئی پہلو باقی ہیں۔ لیکن ان سب پر یہاں بحث کرنا ممکن نہیں۔ مرزاقادیانی نے اپنی خطابت کی تمام قوتیں اس بات پر مرتکز کر دیں کہ کسی طرح لوگ یہ مان لیں کہ مرزاقادیانی کے ذاتی مفاد کے علاوہ دنیا کو بھی کسی نہ کسی طرح کی نبوت کی ضرورت ہے۔ لیکن دنیا کی تمام آبادی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرزاقادیانی کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس میں شک نہیں کہ اتنے لوگ جماعت میں ضرور شامل ہوگئے کہ جس سے مرزاقادیانی کی ذات اور ان کے خاندان کی وجاہت محفوظ ہوگئی۔ لیکن بحیثیت مجوعی لوگوں نے مرزاقادیانی کی نبوت کے بغیر ہی کام چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا اعتراف مرزاقادیانی نے اپنے اس الہام میں کیا ہے۔
’’دنیا میں ایک نذیر آیا۔ لیکن دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ دنیا نے اس نذیر کو کیوں قبول نہیں کیا۔؟ اصل میں اس میں مرزاقادیانی کا کوئی قصور نہیں۔ اگر مرزاقادیانی ان کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتے جن کا ان پر الزام ہے تو بھی آج کی دنیا انہیں قبول نہ کرتی۔ انہوں نے نبوت کا دعویٰ غلط دور میں کیا۔ دنیا عقلیت کے دور میں داخل ہوچکی ہے اور ایسا کرنے میں انسان نے خدا سے کوئی بغاوت نہیں کی۔ بلکہ وہ عین اس راہ پر چل رہا ہے۔ جو خدا نے شروع سے ہی مقدر کردیا تھا۔
محمد رسول اﷲﷺ کے ذریعہ ختم نبوت کا اعلان عین وقت پر کیاگیا تھا۔ اس کے چودہ سو سال بعد ایک جدید نبوت کی طرف بلانا ترقی معکوس کی دعوت دینا ہے۔
ض … ض … ض … ض … ض