جاتا ہے۔ ملت کی اساس وطن، زبان، رنگ، نسل وغیرہ عوامل پر ہوتی ہے۔ لیکن امت محمدی کی بنیاد ان امور کی بجائے مذہبی عقیدہ پر ہے۔ عقائد اور نظریات کی یگانگت کی بنا پر انسانوں کے کسی گروہ کو ایک جماعت یا امت قرار دینا ناجائز نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی جماعت کی اصولی بنیاد کو نمایاں کرنے کے لئے اسے امت محمدی کی بجائے امت مسلم کہنا زیادہ بہتر ہے۔
یہ ایک باریک سا فرق ہے۔ لیکن بعض دفعہ نام کے ایک نازک فرق سے نہایت اہم نظریاتی نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ مغربی مصنفین عام طور پر مسلمانوں کو محمڈن کہتے ہیں اور زمانۂ حال کے مسلمان بجا طور پر اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں جن وجوہ کی بنا پر ایک مسلمان فرد کے لئے محمڈن کا نام نامناسب ہے۔ انہی وجوہ سے مسلمان قوم کے لئے محمڈن نیشن یا امت محمدی کا نام غیر موزوں ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن میں مسلمان قوم کو محمد رسول اﷲﷺ کے نام کے ساتھ منسوب نہیں کیاگیا۔ رسول اکرمﷺ کا ذاتی نام قرآن میں غالباً چار مقامات پر بیان ہوا ہے۔ ان میں سے صرف ایک کا اس موضوع کے ساتھ تعلق ہوسکتا ہے۔ لیکن وہاں بھی مؤمنین کو محمد رسول اﷲﷺ کی امت نہیں کہاگیا۔ بلکہ ان کا ساتھی کہاگیا ہے۔ ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ‘‘ مقصد رسول کے عقائد اور اعمال میں اس کا ساتھ دینے اور پیروی کرنے سے ہے۔ نام سے وابستگی غیر اہم بات ہے۔
بلاشبہ مسلمانوں کو ایک جماعت تسلیم کرتے ہوئے خیرالامم کہاگیا ہے۔ لیکن یہاں امت کی فوقیت اس کے نام یا مذہب کے ظواہر پر مبنی نہیں ہے۔ کیونکہ ساتھ وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ تم اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہو۔ برائیوں سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان لاتے ہو۔ اب ظاہر ہے کہ جب خیرالامم ہونے کے اسباب یہ ٹھہرے تو جس جماعت میں بھی یہ صفات پائی جائیں گی وہ خیر الامم کہلانے کی مستحق ہوگی۔
امت کے اس بلند اور اصولی تصور میں امتی نبی کی اصطلاح اور اس سے متعلقہ بحث بے معنی ہو جاتی ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کے وقت تک اسلام کا یہ وسیع اور عالمگیر مفہوم تقریباً مفقود ہوچکا تھا۔ کم ازکم جس طبقہ سے مرزاقادیانی کو اپنی نبوت منوانی تھی وہاں ایسا تصور موجود نہ تھا عوام مذہب کے متعلق اخلاقی اقدار کی نسبت نام اور گروہ بندی کے زیادہ معتقد تھے۔ مرزاقادیانی کو اسی طبقے سے اپنے مریدوں کی جماعت پیدا کرنی تھی۔ اس لئے انہوں نے عوام کی جماعتی عصبیت سے جذبات کو بیدار کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کے مسئلہ کو مسلمانوں کے لئے ایک قومی غیرت اور حمیت کے سوال کی شکل میں پیش کیا اور یہ